Fatwa Online

کیا شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر کی ہے؟

سوال نمبر:3776

السلام علیکم مفتی صاحب! کیا شریعت میں منافع کی کوئی حد مقرر ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: عبدالرؤف احمد

  • مقام: سعودی عرب
  • تاریخ اشاعت: 04 فروری 2016ء

موضوع:خرید و فروخت (بیع و شراء، تجارت)  |  شرائط خریدو فروخت

جواب:

اسلام کا نظریہ معیشت فطرت سے ہم آہنگ اور تمام معاشی مشکلات کا حل ہے، اس لئے کہ یہ نظام نہ تجربات کا مرہون منت ہے اور نہ اقتصادی ماہرین کی ذہنی کاوش کا نتیجہ بلکہ یہ معاشی نظام پروردگار نے تجویز کیا اور پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ.

اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

القصص، 28: 77

اسلام کے معاشی نظام کی یہ خاصیت ہے کہ وہ طبیعتوں میں بلندی، ذہنوں میں وسعت، اور دلوں میں خلق خدا سے محبت پیدا کرتا ہے، وہ دولت جمع کرنے، یا تعیّش کی زندگی اختیار کرنے کے بجائے ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانے کی مثالیں ہیں:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَجُلًا جَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ فَقَالَ بَلْ اَدْعُو ثُمَّ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ فَقَالَ بَلْ اﷲُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ وَإِنِّي لَاَرْجُو اَنْ اَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ لِاَحَدٍ عِنْدِي مَظْلَمَةٌ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حاضر بارگاہ ہوکر عرض گزار ہوا۔ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (اشیاء) نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بلکہ دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 337، رقم: 8429، موسسة قرطبة مصر
  2. ابي داؤد، السنن، 3: 272، رقم: 3450، دار الفکر

عَنْ اَنَسٍ قَالَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ وَإِنِّي لَاَرْجُو اَنْ اَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ اَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔‘‘

  1. ابي داؤد، السنن، 3: 272، رقم: 3451
  2. ابن ماجه، السنن، 2: 741، رقم: 2200، دار الفکر بيروت

اسلام کا اقتصادی و معاشی نظام ایک مکمل نظامِ معیشت ہے جس میں دنیاوی منافع کو قرآنِ مجید نے ’فضل‘ اور ’خیر‘ کہا ہے اور رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال طریقے سے رز ق کے حصول کو اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں اشیاء کو ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنے، اشیاء کے عیوب چھپا کر بیچنے، ملاوٹ کرنے، قسم کھا کر اشیاء فروخت کرنے، ناپ تول میں کمی کرنے اور ایسی ہی دیگر برائیوں سے باز رہنے کے نہ صرف احکام صادر فرمائے ہیں بلکہ ان پر سخت وعید بھی سنائی ہے۔

 شرعِ متین میں متعارف کروائے گئے خرید وفرخت کے نظام میں منافع کی کوئی حد متعین نہیں کی کہ اتنا جائز ہے اور اس سے زائد ناجائز، تاہم شرع نے ناجائز اور ظالمانہ منافع خوری پر پابندی عائد کی ہے۔ اسلام نے حکومتِ وقت کو اختیار دیا ہے کہ منصفانہ منافع کا معیار مقرّر کر کے زائد منافع خوری کا خاتمہ کرے۔

لہٰذا ایک مسلمان کے لیے مارکیٹ کی عام اور متعارف قیمت سے زیادہ وصول کرنا اور لوگوں کی مجبوری و لاعلمی سے فائدہ اُٹھانا جائز نہیں۔ ایسی ناجائز منافع خوری سے احتراز لازم ہے جس میں بازار کی عام اورمتعارف قیمت سے زیادہ قیمت وصول کی جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 23 November, 2024 03:26:08 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3776/