جواب:
ایسے تمام افعال اور رسوم و رواج جو کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے پھوٹتے ہوں اور ان کی پہچان سمجھے جاتے ہوں، ان کو بطور تہوار منانا اہلِ اسلام کے لیے جائز نہیں۔ کیونکہ پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
من تشبه بقوم فهو منهم
’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
(ابوداؤد)
لیکن ایسے اعمال جن کا تعلق کسی مذہب و تہذیب سے خاص نہ ہو بلکہ مختلف قومیں بلاتخصیص ان کو انجام دیتی ہوں، ان کا کرنا مباح ہے۔
ہالووین مغربی تہذیب کا تہوار ہے جس کا آغاز آئرلینڈ کے قبائل نے کیا۔ ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایسے تہوار منانا اسلام میں جائز نہیں بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرام ہے۔ لیکن مشترک معاشرے اور مغربی دنیا میں رہتے ہوئے مسلمان ایسے تہواروں میں بطور مہمان شریک ہوسکتے ہیں کیونکہ اس سے غلط فہمیوں اور باہمی نفرت و کھچاؤ کی فضاء کے خاتمے میں مدد ملے گی اور اسلام کے تصورِ رواداری کو فروغ ملے گا۔ ایسی صورت میں تہوار کی مبارکباد یا تحفہ وغیرہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ دل میں ان تہواروں کی عظمت ہرگز نہ ہو۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔