Fatwa Online

متبنٰی (منہ بولا بیٹا/ بیٹی) کے شرعی احکام کیا ہیں؟

سوال نمبر:3759

ہمارے معاشرے میں عموماً بچپن میں کسی بچے یا بچی کو کوئی قریبی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار متبنٰی (منہ بولا بیٹا/ بیٹی) بنالیتا ہے۔ اب اس متبنٰی کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے سرکاری تعلیمی ریکارڈ میں ولدیت کیا لکھی جائے گی؟ کیا متبنٰی اپنے پرورش کرنے والے کا وارث بن سکتا ہے؟ اگر متبنٰی بنانے والا اپنی حقیقی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی اپنا ورثہ متبنٰی کے نام منتقل کردے تو کیا بعد از انتقال اس کے دیگر ورثاء متبنٰی سے وہ ورثہ واپس لے سکتے ہیں؟ اگر متبنٰی بنانے والے کی صلبی اولاد بھی ہو تو پھر متبنٰی کو کس طرح وراثت میں حصہ دار بنایا جاسکتا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:

  • تاریخ اشاعت: 03 نومبر 2015ء

موضوع:متبنیٰ کے احکام

جواب:

متبنٰی بنانے والا شخص نہ باپ ہے نہ متبنٰی اس کا بیٹا یا اولاد۔ لہٰذا باپ کی جگہ صرف اور صرف اس کے حقیقی باپ کا نام ہی لکھا اور پکارا جائے گا۔ قرآن کریم میں واضح حکم ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَo ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.

’’اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی اپنی باتیں ہیں اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔ تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں‘‘۔

(الاحزاب، 33: 4،5)

پس متبنٰی (منہ بولے بیٹے/ بیٹی) کے حقیقی والدین ہی اس کے والدین ہیں اور رہیں گے خواہ پرورش کوئی کرے۔ حقیقی والد کا نام ہی والد کے طور پر لکھا اور بتایا جائے گا خواہ کچھ ہو۔ دوسرے کی طرف منسوب کرکے اس کا بیٹا کہنا یا لکھنا حرام ہے۔ متبنٰی کی پرورش کرنے والا شخص اپنی زندگی میں جتنا مناسب سمجھے مکان، روپیہ، دوکان وغیرہ ہبہ کرسکتا ہے، اس کے نام رجسٹری کردے تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس میں وراثت کا جھگڑا نہ ہو۔ وراثت صرف اس مال میں چلتی ہے جو مرتے وقت کسی کی ملکیت میں ہو۔

دوسری صورت یہ بھی ہے کہ مرتے وقت ایک تہائی تک مال اس کے نام کرنے کی وصیت کرجائے۔ اس شخص نے اپنی زندگی میں جو کچھ متبنٰی کو دے دیا چونکہ اب وہ اس کی ملکیت سے نکل کر اس متبنٰی کی ملکیت میں آچکا، لہٰذا اس پر مرنے والے کی وراثت کا اطلاق نہ ہوگا اور نہ ہی واپسی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ جب متبنٰی کسی طور پر وارث بنتا ہی نہیں تو صلبی اولاد یا دیگر ورثاء کے ساتھ اس کا وراثت میں کوئی مسئلہ ہی نہ رہا، باقی ورثاء تمام ترکہ میں سے حسب ضابطہ اپنا اپنا مقررہ حصہ پائیں گے۔

دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ حقیقی ورثاء کا حق اس متبنٰی کی وجہ سے مارا نہ جائے۔ اس لئے میں نے کل مال کی ایک تہائی کی وصیت کی بات کی تاکہ اس کا کام بھی ہوجائے اور بقایا حصے باقی وارثوں میں بھی تقسیم ہوسکیں۔ نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ کوئی محروم ہو۔

نامعلوم نسب کا کوئی بچہ مل جائے تو اس کی پرورش کرنے والا اس کا سرپرست (Guardian) کہلوائے گا اور تمام کاغذات میں بطور والد نہیں بلکہ بطور سرپرست اس کا نام درج کیا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 21 November, 2024 10:17:56 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3759/