ہبہ کی درستی کے احکام کیا ہیں؟
سوال نمبر:3626
السلام علیکم! زید نے اپنی زوجہ کو اپنی زندگی میں کئی بار یہ کہا کہ میرا یہ مکان (جس میں زید اور اس کی زوجہ رہتے تھے) میری بیوی کا ہے۔ اس بات کے گواہ بھی موجود ہیں اور خاندان میں یہ بات مشہور بھی ہے۔ نیز زید نے مرتے دم تک مکان کے کاغذات اپنی بیوی کے قبضے میں ہی رکھے، اور دونوں کی اسی مکان میں سکونت تھی۔ اپنی تمام تر تنخواہ بیوی ہی کو دیتا تھا، اور اسی کی مشاورت سے تمام اہم کام سرانجام دیتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس مکان کا زید سے ہبہ ثابت ہوگا؟ اگر نہیں تو کونسا ایسا کام رہ گیا کہ جس سے ہبہ صحیح ہوجاتا؟
نوٹ: زید کی کوئی اولاد نہیں ہے۔
سوال پوچھنے والے کا نام: سید اویس علی
- مقام: کراچی
- تاریخ اشاعت: 27 مئی 2015ء
موضوع:ہبہ/ ہدیہ
جواب:
اگر دو گواہوں کی موجودگی میں خاوند نے اپنا مکان بیوی کو ہبہ کیا اور اس کے کاغذات
بھی اس کے قبضے میں دے دیے تو از روئےشرعِ متین وہ ہبہ کامل اور درست قرار پایا، کیونکہ
ہبہ قبضہ سے مکمل ہوجاتا ہے۔ جیساکہ درمختار برحاشیۂ ردالمحتار میں ہے:
(وتتم ) الهبة (بالقبض) الکامل
اور ہبہ کامل قبضہ سے مکمل ہوجاتا ہے
شامی، ردالمختار، 4: 569
اب مکان زید کی بیوی کی ملکیت ہے۔ اس لیے مذکورہ ہبہ کردہ مکان کو فروخت کرنے اور اس
میں حسبِ منشا تصرف کرنے کا اسے شرعاً اختیار ہے۔ اس مکان کو بطور وراثت زید کے ورثاء
میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:محمد شبیر قادری
Print Date : 21 November, 2024 09:55:45 PM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3626/