Fatwa Online

کیا سرکاری ملازم کی وفات کے بعد ملنے والے فنڈز پر وراثت کے احکام لاگو ہوں‌ گے؟

سوال نمبر:3618

السلام علیکم! تقسیم وراثت کے دو مسائل‎ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ میرے خالہ زاد بھائی جو کہ پولیس میں تھے انہیں 17 اپریل کو شہید کر دیا گیا۔ وارثین میں یہ لوگ ہیں:

بیوہ

آٹھ سالہ بیٹی

چار سالہ بیٹا

والدہ

شادی شدہ بہن

مرحوم کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ پولیس ایکٹ کے تحت وارثین کو 20 لاکھ روپے اور گھر دیا جاتا ہے، اور 60 سال کی عمر تک پوری تنخواہ بھی ملتی ہے۔ کیا اس پر بھی وراثت کے احکام لاگو ہوں گے؟ یا یہ صرف بیوہ کو ملے گا؟

(مفتی صاحب یہ جوابات آپ ویب سائٹ پر شائع کریں لیکن کاغذ پر آپ کی مہر کے ساتھ بھی چاہئے)

والسلام

سوال پوچھنے والے کا نام: وقاص عبدالقیوم

  • مقام: نارتھ کراچی
  • تاریخ اشاعت: 12 مئی 2015ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

جواب نمبر 1: میت کے کفن دفن پر اُٹھنے والے اخراجات، قرض کی ادائیگی اور وصیت اگر ہے تو ایک تہائی (1/3) سے پوری کرنے کے بعد جو منقولہ و غیر منقولہ جائیداد باقی بچ جائے گی اس کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:

وَلِاَبَوَيْهِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَه وَلَدٌ

’’اور مورث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو‘‘۔

النساء، 4 :11

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ يَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِيَةٍ تُوْصُوْنَ بِهَآ اَوْ دَيْنٍ

’’اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد‘‘۔

النساء ، 4 : 12

يُوْصِيْکُمُ اﷲُ فِيْ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ج

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے‘‘۔

النساء 4: 11

مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مرحوم کے کل قابل تقسیم ترکہ کا چھٹا (1/6) حصہ والدہ کو ملے گا اور کل ترکہ کا ہی آٹھواں (1/8) بیوہ کو ملے گا۔ پھر جو باقی بچ جائے گا اُسے تین (3) برابر حصوں میں تقسیم کر کے ’’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْن‘‘ کے حکم کے تحت دو (2) حصے بیٹے کو ملیں گے اور ایک (1) حصہ بیٹی کو ملے گا۔ یہاں مرحوم کی بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔

لہٰذا جو بھی قابل تقسیم ترکہ ہے اس کو مذکورہ بالا حصوں کے مطابق ورثا میں تقسیم کر دیں۔

جواب نمبر 2: محکمہ کی طرف سے ملنے والی رقم، مکان اور ماہانا تنخواہ وغیرہ کو اگر محکمہ والے صرف بیوہ یا اولاد کے لیے مخصوص کر دیتے ہیں تو پھر یہ سب کچھ اُسی کو ملے گا جس کے لیے انہوں نے مخصوص کر دیا۔ دوسری صورت میں اگر وہ کسی کے لئے مخصوص نہیں کرتے تو پھر تمام ورثاء جنہوں نے ترکہ سے حصہ پایا ہے اُسی طریقہ کار کے مطابق اُن سب میں تقسیم ہو گا۔ اور جب تک تنخواہ ملتی رہے گی وہ بھی سب ورثاء میں تقسیم ہوتی رہے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 23 November, 2024 01:25:32 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3618/