جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
جن لوگوں کو معلوم تھا کہ لڑکا نامرد ہے اس کے باوجود انہوں نے اس کا نکاح آپ سے کیا، ان کا یہ فعل حرام ہے۔ کیونکہ نامرد کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔ انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے آپ پر ظلم کیا، اور اب مزید ظلم ڈھا رہے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے باغی اور حدود اللہ کو توڑنے والے ہیں۔ انہوں نے جس طرح آپ کو دھوکہ دیا ہے، آپ کا انہیں بےنقاب کریں اور ان کی دھوکہ دہی کو بااثر اور سمجھدار رشتہ داروں کے سامنے لائیں، تاکہ وہ اس ظالمانہ رشتے کے خاتمے میں آپ کی مدد کریں۔ آپ کی والدہ اور بھائیوں کا فریضہ ہے کہ آپ کی مدد کریں اور آپ کو گناہ پر مجبور نہ کریں۔
بعض معاشرتی مسائل قرآن و سنت اور ائمہ سلف نے پوری شرح و بسط سے بیان کردیئے ہیں مگر امت کی بدنصیبی کہ عوام و خواص الا ماشاءاللہ ان کے ثمرات سے مستفید نہیں ہوسکے۔ ان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مرد چونکہ عورت پر حاکم ہے اور صدیوں سے حاکم اور ظالم کا چولی دامن کا ساتھ ہے لہٰذا عورت صدیوں سے مرد کے مظالم کا شکار ہے۔ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی حرماں نصیبی شروع ہوجاتی ہے۔ قدیم جہالت اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ انسانی معاشرہ میں براجمان ہے، اس کی پیدائش پر ناک بھنویں چڑھانے کی ظالمانہ رسم آج بھی قائم ہے، جس کو قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْهُه مُسْوَدًّا وَّهُوَ کَظِيْمٌo يَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَا بُشِّرَ بِهط اَيُمْسِکُه عَلَی هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّه فِی التُّرَابِ ط اَلَا سَآءَ مَا يَحْکُمُوْنَo
’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری سنائی جائے دن بھر اس کا چہرہ سیاہ رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے۔لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوشخبری کی بُرائی کے سبب ، کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے؟ وہ بہت ہی بُرا حکم لگاتے ہیں‘‘۔
النحل ، 16: 58 ، 59
بیٹے کی پیدائش پر خوشی کے مظاہرے اور بچی کی پیدائش پر رنج و الم بلکہ تعزیت کے سے انداز؟ اچھا اﷲ کی مرضی، گویا ہوا تو بُرا ہے مگر اﷲ کی مرضی۔۔۔ نَعُوْذُ بِااﷲ۔ ابتداء سے انتہاء تک بچی سے امتیازی سلوک، بیاہ شادی اور تعلیم و تربیت میں نمایاں فرق، وراثت سے بیٹی، بہن، بیوی، ماں کی محرومی۔ الغرض ہر پہلو سے اس کی تحقیر و تذلیل، اس کا مقدر اور مرد کا حق سمجھا جاتا ہے۔ دیگر معاملات میں بھی اس بےزبان کی سننے والا کوئی نہیں۔ ہر سو ظلم کی آگ لگی ہوئی ہے جسے بجھا نے والا کوئی نہیں۔ مذہبی طبقات نے اس پر علم کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ جاگیرداروں، نوابوں، زمینداروں اور پیروں نے بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لئے مختلف شیطانی ہتھکنڈے اپنا رکھے ہیں۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے۔ نہ بیوی بناکر عزت سے ان کو بساتے، نہ طلاق دے کر ان کو قید نکاح سے آزاد کرتے۔ جب اُن سے پوچھا جاتا کہ ان کو اپنے ساتھ بساتے کیوں نہیں؟ جواب دیتے ہم نے طلاق دے دی ہے۔ جب پوچھا جاتا پھر ان کو دوسری جگہ پسند کی شادی کیوں نہیں کرنے دیتے؟ جواب ہوتا ہم نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا۔ لہٰذا نکاح بحال رہا۔ عمر بھر یہی ظلم روا رکھتے۔ آج بعض مسلمان کہلانے والے ببانگ دہل کہتے ہیں، نہ رکھیں گے نہ چھوڑیں گے۔ یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔ قرآن کریم نے اس کا خاتمہ کیا کہ طلاق کی حد مقرر کردی۔ اگر کوئی ایک یادو بار واضح الفاظ میں طلاق دے دے تو عدت کے اندر نیک نیتی سے یا تو رجوع کرلے اور آئندہ بیوی کو تنگ نہ کرے، بیوی بناکر پاس رکھے یا مدت گزرنے دے تاکہ نکاح ختم ہوجائے اور عورت اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔ اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو اب رجوع نہیں کرسکتا جب تک وہ عورت کسی اور سے شادی و قربت نہ کرلے۔
جب عورت کو اس کے حقوق سے محروم کیا جائے۔ شوہر ظلم کرے نہ بیوی بناکر رکھے نہ طلاق دے پھر کوئی طریقہ تو ہو جو اس کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچائے وہ حکومت اور اس کی قائم کردہ عدلیہ ہے۔ چنانچہ مظلوم عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ عدالت کا فرض ہے کہ پوری تحقیق کے بعد اگر یہ ظلم ثابت ہوجائے اور خاوند عدل و انصاف کا راستہ اپنائے نہ عورت کو طلاق دے تو قاضی یعنی عدالت فوراً طلاق دلوائے یا تنسیخ نکاح کردے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلام ہے اور یہی عدل و انصاف۔
دور جاہلیت میں عورت پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جاتے تھے جیسا کہ درج ذیل ہے :
کان الرجل في الجاهلية يطلق امرأته ثم يراجعها قبل أن تنقضي عدتها ولو طلقها ألف مرة کانت القدرة علی المراجعة ثابتة له فجاء ت امرأة اِلی عائشة رضي اﷲ عنها فشکت أن زوجها يطلقها ويراجعها يضارها بذلک فذکرت عائشة رضي اﷲ عنها ذلک لرسول اﷲ فنزل قوله تعالی (اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰن)
’’دور جاہلیت میں خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیتا، چاہے ہزار بار طلاق دیتا۔ اسے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہوتا۔ ایک عورت نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس شکایت کی کہ اس کا خاوند اسے طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرکے اسے ایذاء دیتا ہے سیدہ سلام اﷲ علیہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کردیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (الطلاق مرتٰن: یہ طلاق جس کے بعد رجوع ہوسکتا ہے دوبار تک ہے)‘‘۔
الرازی ، التفسير الکبير، 6: 82، دار الکتب العلمية بيروت
قرآن و سنت کی رو سے کوئی انسان دوسری کسی بھی مخلوق کو ایذاء دینے کا مُجاز نہیں۔ نہ مرد عورت کو، نہ عورت مرد کو، نہ رکھنا نہ چھوڑنا ظلم ہے، جس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلام کیا دنیا کے کسی نظریہ و دھرم میں اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا خاتمہ حکومت ہی کرسکتی ہے۔ لہٰذا قاضی یا عدالت کے پاس جیسے ہر مظلوم داد رسی کے لئے رجوع کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایسی مظلومہ بھی عدالت کے ذریعہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کرواسکتی ہے چونکہ عدالتی فیصلہ حکومتی فیصلہ ہے۔ جس پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بس عدالت کا یہ کام ہے کہ جو عورت داد رسی کے لئے اس کی طرف رجوع کرے یہ تمام حالات و کوائف کی چھان پھٹک کرے۔ منصفانہ وغیر جانبدارانہ تحقیقات سے خاوند کا ظلم ثابت ہو، یا وہ بیوی کے حقوق پورے نہ کرے یا نہ کرسکے اور قاضی عادل کو اطمینان ہو کہ خاوند، بیوی کے حقوق پامال کررہا ہے، عدالت فوراً اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے میاں بیوی میں تنسیخ نکاح کردے۔ یہ عدالتی تنسیخ شرعاً جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ ظلم ختم ہو۔ یہ تنسیخ عدالت طلاق بائن ہوگی۔ نکاح فوراً ٹوٹ جائے گا۔
اگر خاوند نامرد ہو، بیوی بذریعہ عدالت اس سے آزادی کا مطالبہ کرے، حاکم اسے ایک سال کی مہلت دے۔ اگر سال میں قربت کے قابل ہوگیا تو نکاح برقرار رہے گا۔ ورنہ عدالت عورت کے مطالبہ پر تفریق کردے۔ یہی روایت ہے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے۔ یہی فتویٰ ہے دنیا بھر کے فقہائے کرام کا جیسے ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب، امام شافعی اور ان کے اصحاب، امام مالک اور ان کے اصحاب، امام احمد اور ان کے اصحاب کا بھی یہی حکم ہے۔ جادو زدہ اور نامرد کا۔
فإذا مضت المدة ولم يصل إليها تبين أن العجز بآفة أصلية ففات الإمساک بالمعروف ووجب عليه التسريح بالإحسان فإذا امتنع ، ناب القاضي منابه ففرق بينها ولابد من طلبها لأن التفريق حقها وتلک الفرقة تطليقة بائنة لأن الفعل أضيف إلی فعل الزوج فکأنه طلقها بنفسه ... لأن المقصود وهو دفع الظلم عنها لا يحصل إلابها و لولم تکن بائنة تعود معلقة بالمراجعة ولها کمال مهرها إن کان خلابها.
’’جب سال بھر مدت گزر جائے اور مرد جماع کے قابل نہ ہو تو واضح ہوگیا کہ یہ عاجزی اصلی آفت کی وجہ سے ہے لہٰذا امساک بالمعروف ، بھلائی کے ساتھ بیوی کو روک لینا۔ نہ رہا اب خاوند پر لازم ہے کہ اچھے طریقہ سے اسے آزاد کردے۔ جب خاوند اس پر آمادہ نہ ہو قاضی خود اس (خاوند) کا قائمقام ہو کر دونوں میں تفریق کردے چونکہ یہ بیوی کا حق ہے لہٰذا اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے اور یہ تفریق و تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔گویا یہ طلاق خاوند نے خود دی ہے۔۔۔ کیونکہ اصل مقصد یعنی ظلم کا خاتمہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اگر یہ تفریق طلاق بائنہ نہ ہوئی تو رجوع کی صورت میں بیچاری پھر لٹکنے لگے گی۔ اگر خاوند نے اس سے خلوت کی ہے تو اسے مکمل حق مہر بھی ملے گا‘‘۔
مرغيناني ، الهداية، 2: 26، المکتبة الإسلامية
فاذا امتنع کان ظالما فناب القاضی عنه فيه فيضاف فعله اليه
’’جب خاوند طلاق نہ دے تو ظالم ہے لہٰذا قاضی اس مسئلہ میں خود خاوند کا قائم مقام ہو کر تفریق کر دے اب قاضی کا فعل خاوند کی طرف منسوب ہوگا‘‘۔
ابن همام، شرح فتح القدير، 4: 300، دار الفکر، بيروت
إن اختارت الفرقة أمر القاضی أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبي فرق بينهما .... والفرقة لطليقة بائنة .... ولها المهر کاملا وعليها العدة بالاجماع إن کان الزوج قد خلابها وإن لم يخل بها فلا عدة عليها ولها نصف ، المهرإن کان مسمي ، المتعة إن لم يکن مسمّی.
’’اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔ اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور بالاتفاق اس پر عدت لازم ہے اگر خاوند نے اس سے خلوت صحیحہ کی ہے اور اگر خلوت صحیحہ و قربت نہیں کی تو عورت پر عدت نہیں اور اگر مہر مقرر تھا تو اس کا نصف دینا ہوگا اور مہر مقرر نہ تھا تو حسب توفیق کپڑوں کا جوڑا اور تحائف وغیرہ‘‘۔
الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند ، الفتاوی الهندية ، 1: 524 ، دار الفکر
’’یہی حکم ہے نامرد کا۔ مقطوع الذکر کا، خصی کا، قصیر الذکر کا، ان سب کی بیویوں کو اگر وہ عدالت میں اپنا کیس پیش کریں اور عدالت کو سچا ہونے کا یقین ہوجائے تو ایسے نالائق شوہروں سے بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کا حق ہے اور یہ تنسیخ طلاق بائن ہوگی‘‘۔
الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند ، الفتاوی الهندية ، 1: 524 ، دار الفکر
ان تمام صورتوں کے بارے میں علامہ شامی فرماتے ہیں :
فالضرر الحاصل للمرأة به مساولضرر المجبوب فلها طلب التفريق
’’اس سے عورت کو پہنچنے والی تکلیف مجبوب (مقطوع الذکر) کی تکلیف کے برابر ہے اس لئے عورت کو بذریعہ عدالت تفریق کا حق ہے‘‘۔
ابن عابدين شامي ، ردالمحتار ، 3: 495 ، دار الفکر للطباعة والنشر بیروت
اگر آپ کے نکاح کے وقت آزادانہ ایجاب و قبول نہیں ہوا، بلکہ زبردستی آپ سے قبول کروایا گیا تو یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس صورت میں وہ آپ کا خاوند نہیں ہے۔ اس زبردستی کے نکاح میں جتنے لوگ شامل تھے وہ سب مجرم اور سزا کے مستحق ہیں، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی شریعت اور ملکی قوانین کا مذاق اڑایا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ نے اپنی رضامندی سے نکاح تو قبول کر لیا مگر بعد میں لڑکا نامرد ثابت ہوا تو آپ کے لیے اس سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسلام کے طریق نکاح کو جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے: کیا لڑکا اور لڑکی شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں؟
ہم نے جو احکامِ شرعی بیان کیے ہیں آپ اپنی والدہ، بہن بھائیوں اور دیگر مخلص رشتہ داروں کو ان سے آگاہ کریں تاکہ وہ بطور انسان اور بطور مسلمان آپ کی زندگی کو مزید اذیت ناک ہونے سے بچائیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری یہ تحریر دکھانے کے بعد آپ کی مدد ضرور کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔