Fatwa Online

السلام علیکم کی بجائے ’سُرخ سلام‘ کہنا کیسا ہے؟

سوال نمبر:3615

السلام علیکم سر! میں جس جگہ رہتا ہو ں یہاں پر اکثر لوگ ایک دوسرے کو عجیب و غریب الفاظ میں سلام کرتے ہیں، وہ الفاظ ہوتے ہیں ’سور سلام‘ یعنی سرخُ سلام یا لال سلام۔ یہ سرخُ سلام کیا ہے؟ اور اسلام اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: عاطف منیر

  • مقام: نوشہرہ
  • تاریخ اشاعت: 21 مئی 2015ء

موضوع:معاشرت

جواب:

ہر مذہب، قوم، قبیلے اور ہر تہذیب و ثقافت میں ملاقات کے لیے مخصوص الفاظ اور طریقے رائج ہیں۔ ہندو رَام رَام، آریہ نمستے، انگریز گڈ مارننگ، گڈ نون اور گڈ نائٹ، سکھ جے گرو کہتے ہیں۔ مجوسیوں، پارسیوں اور یہودیوں سمیت دنیا کے ہر مذہب، خطے اور تہذیب میں ملاقات کے مخصوص آداب و الفاظ ہیں جنہیں ان کے لوگ بڑے فخر سے بجا لاتے ہیں۔ان تمام طریقوں اور سلاموں میں اسلامی سلام بہت بامعنیٰ ہے۔ اسلام نے ملاقات کا آغاز السّلامُ وعلیکم ورحمتہ اﷲ و برکاتہ کے مبارک الفاظ سے کرنے کا طریقہ سکھایا جو امن، سلامتی، محبت، مروّت، دُعا اور خیر خواہی کا پیغام ہے۔ مخبر صادق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سلام کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ چنانچہ حدیث مبارکہ ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ خَلَقَ اﷲُ آدَمَ عَلَی صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَئِکَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلَائِکَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُونَکَ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُکَ وَتَحِيّةُ ذُرِّيّتِکَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اﷲِ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اﷲِ فَکُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَی صُورَةِ آدَمَ فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الْآنَ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ ان کا قد ساٹھ میٹر تھا، جب انہیں پیدا کردیا تو فرمایا کہ جاؤ اور فرشتوں کی اس جماعت کو سلام کرو جو بیٹھے ہوئے ہیں اور غور سے سننا کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے کہا: السلام علیکم، تو انہوں نے کہا: السلام علیک ورحمۃ اﷲ، فرشتوں نے لفظ رحمۃ اﷲ کا اضافہ کیا۔ لہٰذا جو بھی جنت میں داخل ہو گا وہ حضرت آدم علیہ السلام کی صورت پر ہوگا اور ان کے بعد سے اب تک انسانوں کے قد کاٹھ میں کمی ہوتی آرہی ہے‘‘۔

  1. بخاري، الصحیح، 5: 2299، رقم: 5873، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 4: 2183، رقم: 2841، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. احمد بن حنبل، 2: 315، رقم: 8156، مؤسسة قرطبة مصر
  4. ابن حبان، الصحيح، 14: 33، رقم: 6162، مؤسسة الرسالة بيروت
  5. عبد الرزاق، المصنف، 10: 384، رقم: 19435، المکتب الاسلامي بيروت

سلام وجواب دونوں کو رسول اکرم صلیٰ اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے مثل ِ صدقہ قرار دیا۔ حضرت عمران بن حصین بارگاہ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم عَشْرٌ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ عِشْرُونَ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ ثَلَاثُونَ.

’’حضرت عمران بن حُصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ایک صاحب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی السلام علیکم (یعنی آپ پر سلامتی ہو)، آپ نے جواب دیا اور پھر وہ شخص بیٹھ گیا۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عشر (دس)، پھر ایک اور صاحب حاضر ہوئے اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ (آپ پر سلامتی اور اﷲ کی رحمت ہو)، آپ نے جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا، تو آقا علیہ السلام نے فرمایا: عشرون (بیس)۔ پھر ایک اور صاحب حاضر ہوئے اور عرض کی السلام علیکم ور حمۃ اللہ وبرکاتہ (آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور برکتیں)، وہ صاحب بیٹھ گئے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ثلاثون (تیس نیکیاں)‘‘۔

ابي داؤد، السنن، 4: 350، رقم: 5195، دار الفکر

عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم بِمَعْنَاهُ زَادَ ثُمَّ أَتَی آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ فَقَالَ أَرْبَعُونَ قَالَ هَکَذَا تَکُونُ الْفَضَائِلُ.

’’حضرت سہل بن معاذ بن انس نے انپے والد ماجد سے روایت کی کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح روایت کرتے ہوئے یہ بھی کہا: پھر چوتھے آدمی نے آکر کہا: اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہ وَ مَغْفِرَتُہ (آپ پر سلامتی ہو، اﷲ کی رحمت ہو، برکتیں ہوں اور مغفرت ہو)، آپ نے فرمایا: چالیس(نیکیاں) اور فرمایا فضائل یوں بڑھتے ہیں‘‘۔

ابي داؤد، السنن، 4: 350، رقم: 5196

سلام کرنے کا سنت طریقہ اور اس کی فضیلت درج بالا احادیث میں واضح طور پر بیان کردی گئی ہے۔ ملاقات کا آغاز سلام سے کرنا اسلامی شعائر میں سے ہے، اور ایک مسلمان اسے کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ’سرخ سلام‘ یا ’سور سلام‘ یا ’لال سلام‘ جیسے الفاظ سے ملاقات کا آغاز کرنا غیر اسلامی طریقہ ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 09:56:22 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3615/