Fatwa Online

فاجر اور فاسق کا کیا معنیٰ ہے؟

سوال نمبر:3585

فاجر اور فاسق کا کیا مطلب ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: مشتاق احمد

  • مقام: پلوامہ، کشمیر۔ انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 30 اپریل 2015ء

موضوع:متفرق مسائل

جواب:

فاسق و فاجر تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں، جوکہ عربی زبان سے اردو میں آئے ہیں اور بطور صفت استعمال ہوتے ہیں۔

لغت میں فاسق، نافرمان اور  حسن و فلاح کے راستے سے منحرف ہونے والے شخص کو کہتے ہیں۔ عربی زبان میں کہا جاتا ہے:

فسق فلان عن الجماعة إذ خرج عنها

فلاں شخص جماعت کا نافرمان ہو گیا، جب وہ جماعت سے نکل گیا۔

اصطلاح میں فاسق اس شخص کو کہتے ہیں جو حرام کا مرتکب ہو یا واجب کو ترک کرے یا اطاعتِ الٰہی سے نکل جائے۔ غیر عادل شخص کو بھی فاسق کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور حدودِ شرعی کو توڑنے والا بھی فاسق کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی دو طرح کی ہے: ایک کلی اور دوسری جزوی۔ کلی اور واضح نافرمانی کفر ہے جس میں کوئی شخص اللہ کی نافرمانی کو درست جانتا ہے، جبکہ جزوی نافرمانی فسق ہے جس میں ایک شخص دین الٰہی اور شریعتِ محمدی کی تصدیق بھی کرتا ہے مگر خواہشات نفس میں پڑ کر شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی  بھی کر دیتا ہے، مگر اس کے دل میں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ حکم عدولی غلط اور ناجائز ہے۔ ایسا کرنے والے کو فاسق کہتے ہیں۔

الفسق: في اللغة عدم إطاعة أمر الله وفي الشرع ارتكاب المسلم كبيرة قصدا أو صغيرة مع الإصرار عليها بلا تأويل

فسق، لغت میں اللہ کے حکم کی عدم تعمیل کو کہتے ہیں اور شرع میں اس سے مراد کسی مسلم کا بغیر تاویل کے قصداً گناہِ کبیرہ کا ارتکاب یا گناہِ صغیرہ پر اصرار ہے۔

قواعد الفقه: 1: 412

قرآنِ مجید نے بسا اوقات کفر کو بھی فسق کہا اور کئی مقامات پر کفر کو فسق سے الگ نافرمانی کے معنیٰ میں بھی بیان فرمایا۔ جیسے سورہ حجرات میں ارشاد فرمایا:

وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ

لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا اور کفر اور نافرمانی اور گناہ سے تمہیں متنفر کر دیا۔

الحجرات، 49: 8

کفر پر فسق کا اطلاق کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ

اور جو لوگ نافرمان ہوئے سو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ وہ جب بھی اس سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اِس آتشِ دوزخ کا عذاب چکھتے رہو جِسے تم جھٹلایا کرتے تھے

السجدة، 32 : 20

عربی زبان میں اس کی جمع فُسَّاقٌ اور فَوَاسِقُ، جبکہ مونث کے لیے فاسقہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اور اردو زبان میں اس کی جمع فاسِقِین اور جمع غیرندائی فاسِقوں مستعمل ہے۔

فاجر کے لغوی معنیٰ گنہگار اور حق سے منہ موڑنے والے کے ہیں۔ گناہوں میں لت پت شخص کو بھی فاجر کہتے ہیں۔ اس کی جمع فاجرون، فُجَّار اور مؤنث فاجرۃ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد ثناء اللہ طاہر

Print Date : 22 November, 2024 02:23:31 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3585/