جواب:
اگر تو سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر آپ امام مسجد کو بدعہدی اور جھوٹ کا مرتکب سمجھتے ہیں، تو بلاشبہ بغیر ثبوت کسی کے بارے میں منفی رائے قائم کرنا درست نہیں۔ اگر واقعتاً وہ وعدہ خلافی اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں، تو انہیں سمجھایا جانا چاہیے کہ یہ عادت ان کے منصب کے خلاف ہے۔
بہرحال اگر امام بدعقیدہ نہ ہو تو اس کی اقتداء میں نماز ہوجائے گی، خواہ اس کی اپنی ہو یا نہ ہو۔ الگ جماعت کروانے کی ضرورت نہیں۔
اگر امام صحیح العقیدہ ہو یعنی انبیاء کرام، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور اولیاء و صالحین کا گستاخ نہ ہو، چاہےگناہگار ہی ہو، اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:
عن ابی هرير قال قال رسول اﷲ الصلة المکتوبة واجبة خلف کل مسلم برا کان او فاجرا و ان عمل الکبائر
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے لازم ہے، خواہ نیک ہو یا بد اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو‘‘۔
ابو داود، السنن، 1: 162، رقم: 594، دارالفکر
عن ابی هريرة قال قال رسول اﷲ الجهاد واجب عليکم مع کل امير برا کان او فاجرا والصلة واجبة عليکم خلف کل مسلم برا کان او فاجرا و ان عمل الکبائر والصلة واجبة علی کل مسلم برا کان او فاجرا و ان عمل الکبائر
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر جہاد فرض ہے ہر امیر کے ساتھ، نیک ہو یا بدگو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے نیک ہو خواہ برا گو گناہ کبیرہ کرے‘‘۔
اگر سمجھانے کے باوجود وہ بدعہدی اور جھوٹ جیسی عادات سے باز نہیں آتا تو پھر بہتر ہے کہ اسے تبدیل کردیا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔