Fatwa Online

ضروریات دین کا اثبات کن دلائل سے ہوتا ہے؟

سوال نمبر:3578

السلام علیکم! آج کل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کافر وگمراہ کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ضروریات دین کا منکر کافر اور ضروریات اہل سنت کا منکر گمراہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ کی انتیسویں جلد میں رسالہ اعتقاد الاحباب میں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ضروریات اہلسنت کی جامع و مانع تعریف کیا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ ضروریات اہل سنت کا اثبات کتاب وسنت کے کن دلائل سے ہوتا ہے؟ تاکہ کسی کو گمراہ کہنے کا واضح پیمانہ معلوم ہو سکے۔ علمی وتحقیقی جواب ارسال فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد ذکی

  • مقام: الہ آباد، الہند
  • تاریخ اشاعت: 12 مئی 2015ء

موضوع:عقائد

جواب:

ہمارے نزدیک ضروریات دین ہی ضروریات اہلِ سنت بھی ہیں۔ نماز ‘روزہ ‘حج ‘زکوۃ کی فرضیت‘ زنا، قتل، چوری اور شراب خوری کی ممانعت‘ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا اقرار وغیرہ جیسے احکام قطعیہ کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اولین ضرورت یہ ہے کہ:

تصديق ما جاءبه النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم

جو کچھ نبی علیہ السلام لائے ہیں اس کی دل سے تصدیق کرنا

اسی طرح سورہ بقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَيْبَ ج فِيْهِج هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَo وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَo اُولٰـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ ق وَاُولٰـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں او رجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔ وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں‘‘۔

البقرة، 2: 2 تا 5

لہٰذا رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی کتاب سمیت آپ کی عنائت کردہ تمام تعلیمات کو بلاشک و شبہ دل سے تصدیق کرنا اور یقین رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے، اور یہی ضروریات اہلِ سنت ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے جو قرآن مجید نے بالفاظ ذیل بتلائی ہے:

فلاوربک لايؤمنون حتی يحکموک فيما شجر بينهم ثم لايجدوا فی انفسهم حرجا ً مما قضيت ويسلموا تسليما

قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپ کو اپنے تمام نزاعات و اختلافات میں حَکم نہ بنا دیں اور پھر جو فیصلہ آپ فرمادیں اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں ا ور اس کو پوری طرح تسلیم نہ کر لیں۔

نساء: 65

تفسیر روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام شہاب الدین محمود آلوسی فرماتے ہیں:

فقد روی عن الصادق انه قال لو ان قوما عبدوالله تعالیٰ واقامواالصلوٰة وآتوا الزکوة وصاموارمضان وحجواالبيت ثم قالوالشئی صنعه رسول اﷲ الاّصنع خلاف ماصنع او وجدوا فی انفسهم حرجاً لکانوا مشرکين

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، نماز کی پابندی کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے مگر پھر کسی ایسے فعل کو جس کا ذکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یوں کہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے خلاف کیوں نہ کیا؟ اور اس کے ماننے سے اپنے دل میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرکین میں سے ہے۔

آلوسی، روح المعانی، 5: 65

آیت مذکورہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔

ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں، اور تمام اقسام کا حکم بھی مختلف ہے۔ کفر کا حکم صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اورقطعی الدلالت بھی۔ اگر کوئی شخص قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ احکام کو تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور ان کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو وہ ضروریات دین کا منکر ہونے کی وجہ سے اہلِ قبلہ میں شامل نہیں رہتا۔ لیکن اگر کوئی شخص حکم کو توواجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا تو فاسق اور گمراہ، مگر اہلِ اسلام میں شامل ہے۔

احکام کے قطعی الثبوت ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کا ثبوت قرآن مجید یا احادیثِ متواترہ سے ہو، اور قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبارت قرآن مجید یا حدیث متواتر میں اس حکم کے متعلق وارد ہوئی ہے وہ اپنے مفہوم و مراد کو صاف صاف بیان کرتی ہو، اور اس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 23 November, 2024 05:01:50 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3578/