Fatwa Online

کیا زمین کرایہ یا بٹے پر دینا جائز ہے؟

سوال نمبر:3525

السلام علیکم! کیا زراعت کی زمین کرایہ پر دینا جائز ہے؟

ہمار ے ہاں یہ رواج عام ہے کہ زمین کا مالک دوسر ے آدمی کو ایک سال کے لیے زمین کرایہ پر دے دیتا ہے، اور اس سے چالیس ہزار (40000) روپے فی ایکڑ پہلے لے لیتا ہے۔ فصل اگانے والے کو فائد ا بھی ہوجاتا ہے، اور نقصان بھی ہو جاتا ہے۔

کیا اس طرح کرایا پر دینا جائز ہے؟ جبکہ مالک تکلیف کے بغیر رقم وصول کر تا ہے۔ اگر جائز ہے تو سود کی کیا تعریف ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد نواز

  • مقام: ڈیرہ غازی خان
  • تاریخ اشاعت: 10 مارچ 2015ء

موضوع:معاملات

جواب:

زمین کو بٹائی یا مزارعت پر دینے کا مذکورہ بالا طریقہ درست نہیں، کہ جس میں چالیس ہزار (40000) روپے فی ایکڑ کرایہ یا پٹہ پہلے وصول کر لیا جائے، خواہ زمین میں فصل ہو یا نہ ہو۔ اس صورت میں محنت کش کو بہت زیادہ نقصان کا خدشہ ہے۔ شرعاً کچھ شرائط کے ساتھ زمین بٹائی پر دینا جائز ہے، اس کی مکمل وضاحت درج ذیل ہے:

مزارعت یا بٹائی پر زمین دینے کے حوالے سے احادیث مبارکہ اور اقوال صحابہ میں سے کچھ ایسے اقوال بھی ملتے ہیں جو کہ مزارعت یا بٹائی کی ممانعت سے متعلق ہیں۔ جیسے حضرت حنظلہ بن قیس انصاری نے سنا کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

کُنَّا أَکْثَرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مُزْدَرَعًا کُنَّا نُکْرِي الْأَرْضَ بِالنَّاحِيَةِ مِنْهَا مُسَمًّی لِسَيِّدِ الْأَرْضِ قَالَ فَمِمَّا يُصَابُ ذَلِکَ وَتَسْلَمُ الْأَرْضُ وَمِمَّا يُصَابُ الْأَرْضُ وَيَسْلَمُ ذَلِکَ فَنُهِينَا وَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ فَلَمْ يَکُنْ يَوْمَئِذٍ.

اہل مدینہ میں ہماری زرعی زمین سب سے زیادہ تھی اور ہم اسے بٹائی پر دیا کرتے تھے، اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ پیداوار کا ایک حصہ مالک زمین کا ہوگا اور ایک محنت کرنے والے کا۔ کبھی اِس حصے پر آفت آ جاتی اور وہ سلامت رہتا اور کبھی اُس زمین پر آفت آتی اور یہ سلامت رہتی، لہٰذا اس سے ہمیں منع کر دیا گیا اور اُن دنوں (زمین) سونے چاندی سے ٹھیکے پر نہیں دی جاتی تھی۔

(بخاري، الصحيح، 2: 819، رقم: 2202)

حضرت رافع بن خدیج بن رافع نے اپنے چچا حضرت ظہیر بن رافع سے روایت کی ہے کہ حضرت ظہیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

لَقَدْ نَهَانَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ أَمْرٍ کَانَ بِنَا رَافِقًا قُلْتُ مَا قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَهُوَ حَقٌّ قَالَ دَعَانِي رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ مَا تَصْنَعُونَ بِمَحَاقِلِکُمْ قُلْتُ نُؤاجِرُهَا عَلَی الرُّبُعِ وَعَلَی الْأَوْسُقِ مِنَ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا ازْرَعُوهَا أَوْ أَزْرِعُوهَا أَوْ أَمْسِکُوهَا قَالَ رَافِعٌ قُلْتُ سَمْعًا وَطَاعَةً.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس کام سے منع کیا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا۔ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا وہ درست ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا کہ تم اپنے کھیتوں کا کیا کرتے ہو؟ میں عرض گزار ہوا کہ ہم انہیں چوتھائی بٹائی پر دیتے ہیں، چند کھجوروں یا جو کے چند وسق پر۔ فرمایا کہ یوں نہ کرو بلکہ خود کھیتی کرو یا کھیتی کراؤ یا پڑی رہنے دو۔ رافع عرض گزار ہوئے کہ میں نے سنا اور مانا۔

(بخاري، الصحيح، 2: 824، رقم: 2214)

عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ کَانُوا يَزْرَعُونَهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ کَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلْيُمْسِکْ أَرْضَهُ.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ تہائی، چوتھائی اور نصف حصے پر کاشتکاری کیا کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو وہ خود کاشت کرے یا دوسرے کو مفت دے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی زمین کو پڑی رہنے دے۔

(بخاري، الصحيح، 2: 824، رقم: 2215)

فقہائے کرام اور مزارعت:

مزارعت، بٹائی یا ٹھیکہ پر زمین دینے کے جواز پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد، خیبر کے یہودیوں سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ زمینوں اور باغات پر کام کرتے رہیں اور پیداوار آدھی ان کی آدھی مسلمان حکومت کی اور مزارعت اسی کا نام ہے۔

امام محمد نے اس روایت مرسل کو دلیل بناتے ہوئے مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کو جائز قرار دیا۔ یعنی زمین نصف پیداوار پر دوسرے کو دینا کہ یہ فعل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔

امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک بٹائی پر زمین دینا جائز نہیں۔ ان کے نزدیک خیبر کامعاملہ بٹائی یا مزارعت نہیں۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ کی دو وجوہات بیان کی ہیں:

  1. پہلی وجہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر بزور شمشیر فتح کیا تھا۔

استرقهم و تملک أراضيهم و نخيلهم ثم جعلها في أيديهم يعملون فيها للمسلمين بمنزلة العبيد في نخيل مواليهم وکان في ذلک منفعة للمسلمين ليتفرغوا للجهاد بأنفسهم ولأنهم کانوا أبصر بذلک العمل من المسلمين.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان (یہود) کو غلام بنا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زمینوں اور کھجوروں کے مالک ہو گئے۔ پھر انہی کے ہاتھوں میں یہ اراضی رہنے دی کہ وہ مسلمانوں کے غلاموں کی حیثیت سے ان زمینوں پر اپنے مالکوں کے لئے کام کرتے رہیں۔ اس میں مسلمانوں کو فائدہ تھا کہ وہ جہاد کے لئے فارغ ہو جائیں۔

  1. دوسری بات یہ بھی کہ یہود ان زمینوں کو مسلمانوں سے بہترجانتے تھے اور جو کچھ ان کا پیداوار میں حصہ مقرر فرمایا یہ ان کا نفقہ تھا کیونکہ مسلمانوں کے غلام تھے اور باغوں میں مسلمانوں کے لئے کام کرتے تھے۔ لہٰذا وہ اخراجات لینے کے مستحق تھے ۔ لہٰذا آپ نے ان کا خرچہ ان کی کمائی میں مقرر فرمادیا اور نصف پیداوار ان کیلئے مقررفرمائی۔ جیسے آقا اپنے غلام پر ٹیکس لگاتاہے۔

دوسری وجہ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے بتائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی گردنوں اور زمین و باغوں پر بھی احسان فرمایا۔ آدھی پیداوار کو ان پر اسلامی حکومت کو ادا کرنا لازم کر دیا۔ یہ ’’خراج مقاسمہ‘‘ کہلاتاہے۔

خراج کی دو قسمیں ہیں۔

  1. خراج وظیفہ (خراج مؤظّف)
  2. خراج مقاسمہ

خراج وظیفہ:

خراج وظیفہ سے مراد جب امام کا مفتوحہ علاقہ کے لوگوں پر لگایا گیا مالی ٹیکس ہے۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پر ٹیکس لگایا تھا کہ وہ ہر سال بارہ سو (1200) حُلے اسلامی مرکز کو دیں گے۔ چھ سو (600) محرم ابتدائے سال میں اور چھ سو رجب میں۔

خراج مقاسمہ:

خراج قاسمہ سے مراد زمین کی پیداوار پر دیا جانے والا خراج ہے۔ جیسے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود خیبر سے صلح کامعاہدہ کیا تھاکہ ان کی زمین سے جو پیداوار ہو گی، اس میں سے آدھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور نصف وہا ں کے باشندوں کی، اس میں مزارعت ہوگی۔

امام کو اختیار ہے کہ مفتوحہ اراضی کو وہاں کے باشندوں پر احسان کرتے ہوئے ان پر خراج وظیفہ مقرر کرے اور چاہے تو ان پر خراج مقاسمہ لگا کر انہی زمینوں پر ٹھہرا دے۔ یہ بہترین فیصلہ تھا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ فیصلہ ان کی اور ان کی اولادوں کی گردنوں پر تصرف ہے۔ جیسے عموماً غلاموں اور لونڈیوں میں ہوتاہے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو جلا وطن کیا۔ اگر یہ لوگ مسلمانوں کے مملوک و غلام ہوتے تو انہیں جلا وطن نہ کیا جاتا کیونکہ غلام کو مالک ہمیشہ اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے۔

معلوم ہوا کہ دوسری وجہ ہی درست ہے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود پر یہ بات واضح فرمادی کہ ان پر ان کی کھجوروں اور اراضی کے معاملہ میں جو احسان کیا گیا ہے، یہ ہمیشہ کیلئے غیر مشروط نہیں۔فرمایا:

أقرّکم ما أقرّکم اﷲ.

میں تم کو اس وقت تک یہاں ٹھہراؤں گا جب تک اﷲ ٹھہرائے گا۔

یہ فرمان استثناء کا سا ہے اور اشارہ اس طرف ہے کہ ان کو خیبر میں ٹھہرنے کی اجازت دائمی نہیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے ذریعہ معلوم تھا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ ان کو خیبر سے جلا وطن کر دیں گے۔ اس کلمہ سے آپ نے اپنے قول کو وعدہ خلافی کے عیب سے بچا لیا، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کے عیب سے دور تھے۔

(سرخسي، المبسوط، 23:2، دار المعرفة بيروت)

پس امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک مزارعت جائز نہیں۔ ان کا فرمان ہے کہ مزارعت یا بٹائی پر زمین، خواہ نصف پیداوار پر خواہ تیسرے حصہ پر جائز نہیں۔

امام صاحب کے دلائل:

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يُکْرِي مَزَارِعَهُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَفِي إِمَارَةِ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ حَتَّی بَلَغَهُ فِي آخِرِ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يُحَدِّثُ فِيهَا بِنَهْیٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَدَخَلَ عَلَيْهِ وَأَنَا مَعَهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَنْهَی عَنْ کِرَاءِ الْمَزَارِعِ فَتَرَکَهَا ابْنُ عُمَرَ بَعْدُ وَکَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْهَا بَعْدُ قَالَ زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی عَنْهَا.

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانہ خلافت اور حضرت معاویہ کی حکومت کے ابتدائی دور میں اپنی زمینوں کو بٹائی پر دیا کرتے تھے حتی کہ حضرت معاویہ کی حکومت کے آخر میں انہیں حضرت رافع بن خدیج کی یہ حدیث پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (مجاہد کہتے ہیں) پھر حضرت ابن عمر، حضرت رافع کے پاس گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا اور ان سے اس بارے میں سوال کیا: انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمینوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا، سو اس کے بعد حضرت ابن عمر نے زمین کو کرائے پر دینا چھوڑ دیا۔ پھر جب ان سے اس بارے میں سوال کیا جاتا تو کہتے ابن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔

(مسلم، الصحيح، 3: 1180، رقم: 1547)

قَالَ عَمْرٌو قُلْتُ لِطَاوُسٍ لَوْ تَرَکْتَ الْمُخَابَرَةَ فَإِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی عَنْهُ قَالَ أَيْ عَمْرُو إِنِّي أُعْطِيهِمْ وَأُغْنِيهِمْ وَإِنَّ أَعْلَمَهُمْ أَخْبَرَنِي يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَمْ يَنْهَ عَنْهُ وَلَکِنْ قَالَ أَنْ يَمْنَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهِ خَرْجًا مَعْلُومًا.

حضرت عمرو کا بیان ہے کہ میں نے طاؤس سے کہا کہ کاش! آپ بٹائی پر زمین دینا چھوڑ دیتے، کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا: میں انہیں دیتا ہوں اور انہیں بے نیاز کر دیتا ہوں جب کہ اُن میں سب سے بڑے عالم یعنی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو مفت دے یہ اُس کے بدلے کچھ مقرر کر کے لینے سے بہتر ہے۔

(بخاري، الصحيح، 2: 821، رقم: 2205)

خلاصہ کلام:

سطور بالا میں قرآن و سنت و اقوال صحابہ و فقہاء کرام سے یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ جاگیرداری اور بٹائی پر زمین دینا درست نہیں۔ کبھی انسان مجبور ہو جاتا ہے اور زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ حالات کے ہا تھوں مجبور ہو کر اسے وہ کچھ کرنا پڑ جاتا ہے جو اسے سخت نا پسند ہے۔ یہ حالتِ اضطرار کہلاتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اﷲِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

پھر جو شخص بے بس و لاچار ہو جائے، نہ خواہشمند ہو اور نہ ضرورت مند آگے بڑھنے والا ہو تو اس پر ( حرام کھانا بقدر ضرورت میں) کچھ گناہ نہیں، بیشک اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔

(البقرة، 2: 173)

مثلاً وراثت میں زمین ملی، چھوٹے چھوٹے بچے، بیوی اور بوڑھے والدین کیا کرے؟ یا قومی و ملی فوجی خدمات کے صلہ میں سرکاری زمین ملی، کیا کرے؟ بعض رفاہی اداروں کو ان کی رفاہی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے عوام یا حکومت جاگیر دیتی ہے، اُسے کیسے آباد کیا جائے اور کس طرح پیداوار حاصل کی جائے؟ اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حکومت غریب مزارعین کو مفت اعانت نہیں کرتی تو کم سے کم قرض حسن دے۔ ٹریکٹر، کھاد اور زرعی قرضے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں وڈیروں کو ہی کیوں دیئے جاتے ہیں؟ محنت کرنے والے مزدوروں اور ہاریوں کو دیں۔ جاگیردار بڑے شہروں میں پر تعیش زندگی محلات میں گزار رہا ہے۔ اس کے پاس محدود رقبہ رہنے دیں باقی ہاریوں میں تقسیم کردیں۔ فرعونیت کا خاتمہ کریں۔ کسانوں کی روٹی و عزت کو بحال کریں۔ بقول علامہ اقبال:

خواجہ نان بندہِ مزدور خورد
آبروئے دختر مزدور دُرد

جاگیردار، زمیندار، ملک، وڈیرہ، نواب مزدور کی روٹی کھا گیا اور مزدور کی بیٹی کی عزت بھی پامال کر گیا۔

لہٰذا خاص حالا ت میں شرائط کے ساتھ بعض آئمہ نے اس مزارعت کو جائز قرار دیا ہے۔ جیسے احناف میں صاحبین اور دیگر متعدد آئمہ کرام نے۔

’’فهي فاسدة عند أبي حنيفة رحمه اﷲ وعندهما جائزة والفتوی علی قولهما لحاجة الناس ‘‘.

بٹائی پر زمین دینا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک ناجائز ہے اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) رحمھما اﷲ کے نزدیک مشروط طور پر جائز ہے اور فتویٰ لوگوں کی حاجت کی پیش نظر صاحبین کے قول پر ہی ہے۔

(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 5: 235، دار الفکر)

جواز کی نمایا ں شرطیں یہ ہیں :

  1. زمین زراعت کے قابل ہو۔
  2. مالک زمین اور بٹائی پر لینے والا، دونوں اہل عقد ہوں۔
  3. معاہدہ کی مدت بیان کر دی جائے ۔
  4. بیج کس کے ذمہ ہو گا ؟ اس امر کو واضح کیاجائے۔
  5. جنس متعین ہو۔
  6. دوسرے فریق کاحصہ (نصف، ثلث، ربع) وغیرہ بھی متعین ہو۔
  7. زمین کام کرنے والے کے حوالے کر دی جائے۔

(ابن نجيم، البحر الرائق، 8: 181، دار المعرفة بيروت)

پس شریعت مطہرہ نے کمال حکمت سے مشروط اجازت بھی دی اور عام حالات میں اسکی حوصلہ شکنی بھی کر دی۔

سود کی تعریف اور مکمل وضاحت دیکھنے کے لیے ملاحظہ کیجیے:

سود کی تعریف کیا ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 23 November, 2024 01:12:11 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3525/