Fatwa Online

اسلامی ریاست کی تعریف کیا ہے؟ اعلائے کلمۃ الحق کا کیا طریقہ ہے؟

سوال نمبر:3479

السلام علیکم! میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان کا نظام اسلامی نظام ہے؟

پاکستان میں امریکہ کے بڑے بڑے اڈے ہیں، عدالتوں میں ’’غیر ماانزل اللہ‘‘ پر فیصلے ہوتے ہیں، امریکہ کے ساتھ دوستی ہے،کیا ان حالات میں پاکستان میں جہاد فرض نہیں ہوتا؟

سوال پوچھنے والے کا نام: نوراللہ غفوری

  • مقام: کابل
  • تاریخ اشاعت: 11 فروری 2015ء

موضوع:امور سیاست

جواب:

آئمہ و فقہاء نے دارالاسلام کی مختلف تعریفات کی ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

علامہ ابو یعلیٰ حنبلی دارالاسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وکل دار کانت الغلبة فیها لاحکام الاسلام دون احکام الکفر، فهی داراسلام

ہر وہ ملک جہاں احکامِ کفر کی نسبت احکامِ اسلام کا غلبہ ہو دارالاسلام کے زمرے میں آئےگا۔

ابو یعلی حنبلی، المعتمدفی اصول الدین: 276

علامہ ابنِ مفلج حنبلی بھی دارالسلام کی تعریف میں احکامِ السلام کے غلبہ کو بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

فکل دار غلب علیها احکام المسلمین فدار الاسلام

ہر وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کے احکام کا غلبہ ہو، دارالاسلام ہے۔

ابنِ مفلج، الآداب الشرعیة، 1: 211

شیخ محمد ابو زہرہ نے دارالاسلام کی تعریف اس طرح کی ہے:

دارالاسلام هی الدولة التی تحکم بسلطان المسلمین و تکون المنعة و القوة فیها للمسلمین

دارالاسلام وہ ملک ہے جس کا انتظامِ حکومت مسلم حکمران کے کنٹرول میں ہو اور اس کی فوجی اور دفاعی طاقت سب مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔

ابو زهرة، العلاقات الدولیة فی الاسلام: 56

علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:

قال الجمهور: دار الإسلام هي التي نزلها المسلمون، وجرت عليها أحكام الإسلام

جمہور کہتے ہیں: دار الاسلام وہ ہے جہاں مسلمان بس جائیں اور اس پر اسلام کے احکام جاری ہوں۔

انِ قیم، احکام اهل الذمة، 2: 728

درج بالا تعریفات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر دارالاسلام بھی ہے اور دارالمسلمین بھی۔ یہاں نہ صرف اہلِ اسلام کی اکثریت ہے بلکہ ملک کی فوجی اور دفاعی قوت بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔

جہاں تک پاکستان میں قرآن و سنت پر مبنی قوانین کے نفاذ کا تعلق ہے تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں دستوری اور قانونی سطح پر نفاذِ اسلام کی پوری جدوجہد مختلف مراحل سے گزری ہے۔ قرار دادِ مقاصد سے لیکر دستورِ پاکستان 1973 کی تکمیل تک ملک کی مذہبی قیادت دستور سازی کے مختلف مراحل میں شریک رہی ہے اور ان کے اتفاق اور جدوجہد سے ہی پاکستان نے دستوری اعتبار سے ایک اسلامی مملکت کا تشخص حاصل کیا ہے۔ یہی معاملہ عدالتی قوانین کا ہے۔ تاہم مذہبی طبقے کی اب تک کی ساری جدوجہد کے باوجود دستور اور قانون میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو شریعت کے مکمل نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ لیکن اس سے ریاستِ پاکستان کے خلاف خروج کا شرعی جواز قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔

یہ بات دلائل سے ثابت ہو چکی ہے کہ کسی مسلم ریاست میں قائم حکومت کے خلاف مسلح بغاوت جائز نہیں، خواہ ارباب اختیار و اقتدار فاسق و فاجر اور معصیت کیش ہی کیوں نہ ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان رعایا اگر مسلمان حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف مسلح جد و جہد نہیں کر سکتی تو پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا حکمرانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں اور اہل حق خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہیں؟ ان حالات میں مسلمان شہریوں پر کوئی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر ایک طرف اسلام مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کی حمایت نہیں کرتا تو دوسری طرف اس کے ظلم و جبر اور غیر عادلانہ و غیر صالحانہ رویوں پر خاموش رہنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اس حوالے سے اسلامی ریاست کے شہریوں کے لئے برائی کو روکنے، ظلم کو مٹانے اور احوال کو سدھارنے کی جد و جہد میں درج ذیل راستے کھلے ہیں:

  • آزادی اظہار رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے ظلم کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کرنا۔
  • کتب، لٹریچر اور اخبارات میں مضامین کے ذریعے ہر برائی اور ظلم کی مذمت اور اس کا جمہوری انداز سے مؤاخذہ کرنا۔
  • احتجاجی مظاہروں اور پرامن ریلیوں کی شکل میں ظلم و ناانصافی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا۔
  • جمہوری و آئینی دائرے کے اندر رہ کر اجتماعات اور کانفرنسز منعقد کرنا۔
  • تقریر و تحریر کے ذریعے اجتماعی شعور کو بیدار اور رائے عامہ کو ظلم و استحصال اور ناانصافی کے خلاف ہموار کرنا۔
  • ان تمام مقاصد کے لئے تنظیم سازی اور جماعت سازی کرنا۔
  • بہتری کے لئے حکومتوں کو آئینی و جمہوری طریقے سے بدلنے کی کوشش اور جماعتی سطح پر منظم پرامن جد و جہد کرنا۔

بعض اوقات یہی کوششیں انفرادی، اجتماعی، تنظیمی اور جماعتی سطح پر فرائض کا درجہ بھی اختیار کرلیتی ہیں اور ان سے پہلو تہی گناہ اور عذابِ خداوندی کا باعث بن جاتی ہے۔

اِسی طرح ظلم و تشدد کے خاتمے، انسانی حقوق کی بحالی، بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور قانون کی بالا دستی کے لئے پارلیمنٹ کے فلور پر آواز اٹھانا بھی اسلامی، آئینی اور جمہوری طریقہ ہے جسے کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔ سیاسی جماعت تشکیل دے کر انتخابی جد و جہد کرنا اور مختلف فورمز پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنا اور ترویج و اشاعت اسلام کے لئے انفرادی، اجتماعی اور جماعتی سطح پر آئینی و جمہوری طریقے سے جد و جہد کرنا، یہ سب کچھ قرآن و سنت کی بنیادی روح کے عین مطابق ہے۔

مزید وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری کی شہرہ آفاق تصنیف ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ ملاحظہ کیجیے:

دہشت گردی اور فتنہ خوارج

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 06:13:07 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3479/