جواب:
چونکہ میاں بیوی سامنے موجود نہیں ہیں اور نہ ہی دونوں کے بیانات ہمارے پاس ہیں۔ اس لیے کوئی حتمی فیصلہ کیا جا سکتاہے اور نہ ہی ایک فریق کے بیانات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا مناسب ہے۔ بہر حال یکطرفہ سوال کے جواب میں جو صورتیں بنتی ہیں درج ذیل ہیں:
بادی نظر میں ظاہر ہوتا ہے مسماۃ فوزیہ حنیف، آپ کے ساتھ نکاح کرنے پر رضامند نہیں تھی۔ جس کا عملی مظاہرہ نکاح کے دوسرے دن ہی سامنے ہوگیا۔ معلوم نہیں کہ آپ کا نکاح اس کے ساتھ جبراً کیا گیا؟ اس نے اس نکاح کا انکار کیا یا نہیں؟ یا والدین اور دیگر رشتہ داروں کے رد عمل کی وجہ سے وہ خاموش رہی؟ اس کی وضاحت آپ نے نہیں کی۔ اسلام میں بالغ لڑکا اور لڑکی خود مختار ہوتے ہیں۔ وہ اپنا نکاح اپنی پسند اور مرضی سے کر سکتے ہیں۔ یہ حق ان کو قرآن و حدیث اور ملکی قانون نے تو دیا مگر والدین یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ قرآن کریم نے پسند کی شادی کا حکم دیا ہے:
فرمان الٰہی ہے:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ
اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو
النساء ، 4: 3
یہ پسند دو طرفہ ہو گی ، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی ، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا:
وَمِنْ اٰیٰـتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْها وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّة وَّرَحْمَةطاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
الروم، 30: 21
اس ضمن میں چند احادیث درج ذیل ہیں:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَة فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی مَا یَدْعُوه إِلَی نِکَاحِها فَلْیَفْعَلْ ۔ قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِیَة فَکُنْتُ أَتَخَبَّأُ لَها حَتَّی رَأَیْتُ مِنْها مَا دَعَانِي إِلَی نِکَاحِها فَتَزَوَّجْتُها۔
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ الْمُغِیرَة بْنَ شُعْبَة أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَ امْرَأَة فَقَالَ لَه النَّبِيُّ اذْهبْ فَانْظُرْ إِلَیْها فَإِنَّه أَحْرَی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَها فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِها۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو، کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا۔ بعد میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔
عَنْ أَبِي سَلَمَة أَنَّ أَبَا هرَیْرَة حَدَّثَهمْ أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ لَا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا یَا رَسُولَ اﷲِ وَکَیْفَ إِذْنُها قَالَ أَنْ تَسْکُتَ ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنوای لڑکی (بالغہ) کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اﷲ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں:
واذا أدرکت بالحیض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤیة الدم۔
اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے
الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند ، الفتاوی الهندیة، 1: 286، دار الفکر
ینعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضها و ان لم یعقد علیها ولی بکرا کانت أو ثیبا ۔۔۔۔۔ولا یجوز للولی اجبار البکر البالغة علی النکاح
آزاد، عقل مند اور بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی سے ہو جاتا ہے۔ خواہ اس کا ولی نہ کرے ، کنواری ہو یا ثیبہ۔۔۔۔ولی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کنواری بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرے۔
مرغینانی، الہدایة شرح البدایة، 1: 196، المکتبة الاسلامیة
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں لڑکے اور لڑکی کی پسند کا خیال رکھنا والدین پر واجب ہے۔ سو ان کی مرضی کے خلاف شادی مسلط نہیں کی جانی چاہئے۔ لڑکے کو اسلام کی روح سے لڑکی کو دیکھنا اور لڑکی کو لڑکے کو دیکھنے کی اجازت ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دو بڑے طبقے ہیں ایک والدین کا ہے جو لڑکے لڑکی کی رائے لینا پسند ہی نہیں کرتا اپنی مرضی کے فیصلے ان پر ٹھونستا ہے دوسری طرف اولاد کا ایک ایسا طبقہ ہے جو والدین کی رائے لینا پسند نہیں کرتا وہ شادی سے پہلے ہی کبھی شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں کبھی سیر و تفریح کے لیے کئی کئی دن رات گھر سے غائب رہتے ہیں والدین کو پوچھنے کی جرات تک نہیں لیکن یہ دونوں انتہائیں ہیں ، اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ دونوں خاندان ایک دوسرے کو کھانے پر مدعو کریں۔ اس طرح لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں گے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا بہت کم لوگ کرتے ہیں۔
ایک تو درج بالا صورت ہے، جبکہ دوسری صورت یہ ہے کہ اگرفوزیہ حنیف کا آپ سے رشتہ طے کرتے وقت اس سے مشورہ کیا گیا اور نکاح بھی اس کی رضا مندی سے کیا گیا۔ اور وقت نکاح بھی اس نے بلا جبرو اکرہ ایجاب وقبول کیا۔ یعنی اس نے کسی قسم کا کوئی ناپسندیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا تو اس کا آپ سے نکاح قائم ہو گیا تھا۔ اس صورت میں لڑکی کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی جب تک طلاق نہ ہو جائے ، خاوند فوت نہ ہو جائے یا پھر شرعی وجوہات کی بنا پر خلع یا تنسیخ نکاح کروا لے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں جہاں ان عورتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح کرنا حرام ہے ان میں یہ بھی ذکر ہے کہ جو عورت شادی شدہ ہے وہ بھی جب تک کسی کے نکاح میں رہے کسی دوسرے کے لیے حرام ہے۔ جیساکہ درج ذیل ہے:
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں)۔
النساء 4: 24
مذکورہ بالا پورے مضمون کی رو سے آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔