Fatwa Online

نکاح پر نکاح کرنے کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:3391

<p>السلام علیکم! سائل سکنہ مکان نمبر ۲۲۴۔اے نشتر محلہ صدر بازار لاہور کینٹ کا رہائیشی ہے۔ سائل کو دین اسلام کی روشنی میں ایک مسلئہ میں راہنمائی درکار ہے۔ امید ہے کہ راہنمائی فرمائی جائے گی۔ جواب اگر اپنے آفیشل لیٹر پیڈ پہ دے دیں تو زیادہ مناسب ھو گا کیوں کہ سائل اسے ۱۲۔ دسمبر ۲۰۱۴ کو ہونے والی پیشی پر کورٹ میں پیش کرنا چاہتا ہے۔</p> <p>۹۔مارچ ۲۰۰۹ کو سائل کا نکاح اس کی پھپھو زاد فوزیہ حنیف ولد محمد حنیف ساکنہ مظفر آباد (موجودہ رہائش برطانیہ) کے ساتھ ھوا۔ نکاح کے اگلے ہی دن سائل کی منکوحہ نواز خان ولد فلک ناز خان نامی لڑکے کے ساتھ فرار ھو گئی۔ بے حد تلاش کے باوجود بھی ان کا کوئی سراخ نہ مل سکا۔ اب تقریبًا پانچ (۵) سال بعد سائل کو منکوحہ کے وکیل کی جانب سے خلع کا نوٹس موصول ھوا۔ بقول اس کے وکیل کے وہ نواز خان نامی شخص کی بیوی اور اس کے دو بچوں کی ماں ہے۔ مطلب یہ کہ دعویٰ کے وقت میری منکوحہ کسی اور کی بیوی اور اس کے بچوں کی ماں بھی تھی۔ جواب میں سائل نے عدالت میں جواب دائر کیا کہ ۲۰۰۹ سے لے کر اب تک سائل اپنی منکوحہ بیوی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، کیوں کہ سائل اپنی بیوی کے ساتھ ایک مکمل زندگی گزارنا چاھتا ہے۔ جب کہ عدالت نے فیصلہ میری منکوحہ کے حق میں سنا دیا کہ اسے طلاق واقع ھو چکی ہے۔</p> <p>حیرت کی انتہا ہے کہ سائل نے کبھی بھی اپنی منکوحہ کو طلاق نہیں دی تو پھر طلاق کیسے واقع ہوگئی؟ کیا ایک منکوحہ کو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ نکاح پر نکاح کر لے؟ اس شخص کے بچے بھی پیدا کر لے؟ ایسی صورت میں اسلام اس عورت اور اس سے پیدا ھونے والے بچوں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟</p> <p>سائل نے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر دی ہے، کیونکہ پہلی عدالت کا فیصلہ سائل کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ براہ مہربانی سائل کی راہنمائی کیجئے کہ کیا اسلام عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ھے کہ وہ نکاح پر نکاح کر کے کسی اور کی اولاد پیدا کرے؟ اگر نہیں تو پھر اسلام میں اس کی کیا سزا یا اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟</p>

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد وسیم

  • مقام: لاہور۔
  • تاریخ اشاعت: 09 دسمبر 2014ء

موضوع:نکاح

جواب:

چونکہ میاں بیوی سامنے موجود نہیں ہیں اور نہ ہی دونوں کے بیانات ہمارے پاس ہیں۔ اس لیے کوئی حتمی فیصلہ کیا جا سکتاہے اور نہ ہی ایک فریق کے بیانات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا مناسب ہے۔ بہر حال یکطرفہ سوال کے جواب میں جو صورتیں بنتی ہیں درج ذیل ہیں:

بادی نظر میں ظاہر ہوتا ہے مسماۃ فوزیہ حنیف، آپ کے ساتھ نکاح کرنے پر رضامند نہیں تھی۔ جس کا عملی مظاہرہ نکاح کے دوسرے دن ہی سامنے ہوگیا۔ معلوم نہیں کہ آپ کا نکاح اس کے ساتھ جبراً کیا گیا؟ اس نے اس نکاح کا انکار کیا یا نہیں؟ یا والدین اور دیگر رشتہ داروں کے رد عمل کی وجہ سے وہ خاموش رہی؟ اس کی وضاحت آپ نے نہیں کی۔ اسلام میں بالغ لڑکا اور لڑکی خود مختار ہوتے ہیں۔ وہ اپنا نکاح اپنی پسند اور مرضی سے کر سکتے ہیں۔ یہ حق ان کو قرآن و حدیث اور ملکی قانون نے تو دیا مگر والدین یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ قرآن کریم نے پسند کی شادی کا حکم دیا ہے:

 فرمان الٰہی ہے:

فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ

اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو

النساء ، 4: 3

یہ پسند دو طرفہ ہو گی ، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی ، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا:

وَمِنْ اٰیٰـتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْها وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّة وَّرَحْمَةطاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ

اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔

الروم، 30: 21

اس ضمن میں چند احادیث درج ذیل ہیں:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَة فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی مَا یَدْعُوه إِلَی نِکَاحِها فَلْیَفْعَلْ ۔ قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِیَة فَکُنْتُ أَتَخَبَّأُ لَها حَتَّی رَأَیْتُ مِنْها مَا دَعَانِي إِلَی نِکَاحِها فَتَزَوَّجْتُها۔

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا۔

  1. ۔أحمد بن حنبل، المسند، 3: 334، رقم: 14626 ، مؤسسة قرطبة مصر
  2. أبو داؤد، السنن، 2: 228، رقم: 2082، دار الفکر

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ الْمُغِیرَة بْنَ شُعْبَة أَرَادَ أَنْ یَتَزَوَّجَ امْرَأَة فَقَالَ لَه النَّبِيُّ اذْهبْ فَانْظُرْ إِلَیْها فَإِنَّه أَحْرَی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَها فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِها۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو، کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا۔ بعد میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔

  1. نسائی، السنن الکبری، 3: 272، رقم: 1865، دار الکتب العلمیة بیروت
  2. ابن ماجه، السنن، 1: 599، رقم: 1865، دار الفکر بیروت

عَنْ أَبِي سَلَمَة أَنَّ أَبَا هرَیْرَة حَدَّثَهمْ أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ لَا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا یَا رَسُولَ اﷲِ وَکَیْفَ إِذْنُها قَالَ أَنْ تَسْکُتَ ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنوای لڑکی (بالغہ) کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اﷲ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے۔

  1. بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب: لاتنکح الأب و غیره البکر والثیب الابرضاها، 5: 974، رقم: 4843، دارابن کثیر الیمامة، بیروت
  2. مسلم، الصحیح، باب استئذان الثیب فی النکاح بالنطق و البکربالسکوت، 2: 1036، رقم: 1419، داراحیاء التراث العربی بیروت

فقہائے کرام فرماتے ہیں:

واذا أدرکت بالحیض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤیة الدم۔

اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے

الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند ، الفتاوی الهندیة، 1: 286، دار الفکر

ینعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضها و ان لم یعقد علیها ولی بکرا کانت أو ثیبا ۔۔۔۔۔ولا یجوز للولی اجبار البکر البالغة علی النکاح

آزاد، عقل مند اور بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی سے ہو جاتا ہے۔ خواہ اس کا ولی نہ کرے ، کنواری ہو یا ثیبہ۔۔۔۔ولی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کنواری بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرے۔

مرغینانی، الہدایة شرح البدایة، 1: 196، المکتبة الاسلامیة

مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں لڑکے اور لڑکی کی پسند کا خیال رکھنا والدین پر واجب ہے۔ سو ان کی مرضی کے خلاف شادی مسلط نہیں کی جانی چاہئے۔ لڑکے کو اسلام کی روح سے لڑکی کو دیکھنا اور لڑکی کو لڑکے کو دیکھنے کی اجازت ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دو بڑے طبقے ہیں ایک والدین کا ہے جو لڑکے لڑکی کی رائے لینا پسند ہی نہیں کرتا اپنی مرضی کے فیصلے ان پر ٹھونستا ہے دوسری طرف اولاد کا ایک ایسا طبقہ ہے جو والدین کی رائے لینا پسند نہیں کرتا وہ شادی سے پہلے ہی کبھی شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں کبھی سیر و تفریح کے لیے کئی کئی دن رات گھر سے غائب رہتے ہیں والدین کو پوچھنے کی جرات تک نہیں لیکن یہ دونوں انتہائیں ہیں ، اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ دونوں خاندان ایک دوسرے کو کھانے پر مدعو کریں۔ اس طرح لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں گے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا بہت کم لوگ کرتے ہیں۔

ایک تو درج بالا صورت ہے، جبکہ دوسری صورت یہ ہے کہ اگرفوزیہ حنیف کا آپ سے رشتہ طے کرتے وقت اس سے مشورہ کیا گیا اور نکاح بھی اس کی رضا مندی سے کیا گیا۔ اور وقت نکاح بھی اس نے بلا جبرو اکرہ ایجاب وقبول کیا۔ یعنی اس نے کسی قسم کا کوئی ناپسندیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا تو اس کا آپ سے نکاح قائم ہو گیا تھا۔ اس صورت میں لڑکی کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی جب تک طلاق نہ ہو جائے ، خاوند فوت نہ ہو جائے یا پھر شرعی وجوہات کی بنا پر خلع یا تنسیخ نکاح کروا لے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں جہاں ان عورتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح کرنا حرام ہے ان میں یہ بھی ذکر ہے کہ جو عورت شادی شدہ ہے وہ بھی جب تک کسی کے نکاح میں رہے کسی دوسرے کے لیے حرام ہے۔ جیساکہ درج ذیل ہے:

وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں)۔

النساء 4: 24

مذکورہ بالا پورے مضمون کی رو سے آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

  1. اگر فوزیہ حنیف کا نکاح، آپ کے ساتھ، اس کی رضا مندی کے بغیر جبراً کیا گیا تھا تو وہ نکاح سرے سے قائم ہوا ہی نہیں تھا۔ ایسی صورت میں جو اس نے نواز خان کے ساتھ اپنی مرضی سے نکاح کیا وہ درست شمار کیا جائے گا۔
  2. اگر آپ کے ساتھ نکاح کرنے پر وہ بلا جبرو اکرہ رضا مند تھی اور ابھی تک آپ نے طلاق نہیں دی، نہ ہی خلع کے لیے آپ سے رابطہ کیا گیا۔ ایسی صورت میں وہ ابھی بھی آپ کے نکاح میں شمار کی جائے گی اور دوسر نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ لیکن صورت حال کے پیش نظر آپ اسے طلاق دے دیں تاکہ وہ نواز خان سے دوبارہ نکاح کر لے۔
  3. اگر پہلی صورت ہے تو ان کو کوئی سزا نہیں دلوائی جائے گی۔ دوسری صورت میں بذریعہ عدالت ان کو سزا دلوائی جا سکتی ہے۔
  4. دونوں صورتوں میں بچے نواز خان کے ہی ذمہ ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 24 November, 2024 09:18:12 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3391/