جواب:
پرندے رکھنا اور ان کو پالنا شرعاً جائز ہے، اور شرع میں اس کی ممانعت نہیں کی گئی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے:
يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه.
’’اے ابو عمیر! نغیر (ایک پرندہ) کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا‘‘۔
بخاري، الصحيح، 5: 2291، رقم: 5850، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحيح، 3: 1692، رقم: 2150، دار احياء التراث العربي بيروت
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا۔ تو معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
إن في الحديث دلالة على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي
اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔
عسقلانى، فتح البارى، 10: 584، دار المعرفة بيروت
تو جب پرندوں کو پالنا جائز ہے تو ان کا کاروبار بھی جائز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ضروری شرط یہ ہے کہ ان جانوروں کےحقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے، کیونکہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض
ایک عورت صرف اس لئے جہنم میں چلی گئی کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی، لیکن اسے نہ تو کھانا کھلایا اور نہ ہی اسے زمین میں کھلا چھوڑ دیا کہ وہ حشرات الارض سے پیٹ بھر لے۔
بخاری، الصحيح، كتاب بدء الخلق، رقم: 2
لہٰذا پرندے پالنے اور ان کے کاروبار کرنے کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
تمام تر سہولیات کے باوجود اگر کسی شخص کی ملکیت میں کوئی پرندہ مر جائے تو وہ شخص گنہگار نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس نے پرندے پر کسی قسم کا ستم نہیں کیا تھا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔