جواب:
آپ نے جو سوال دریافت کیا ہے، دراصل یہ رضاعت کا مسئلہ ہے۔ لفظ ’رضاعت‘ اور اس کے دیگر مشتقات قرآن حکیم میں دس مقامات پر آئے ہیں۔ ’المعجم الوسیط‘ میں رضاعت کا معنی کچھ یوں بیان ہوئے ہیں:
أرضعت الأم : کأن لها ولد تُرضِعه.
’’ماں کا بچہ کو دودھ پلانا رضاعت کہلاتا ہے۔‘‘
فقہی اصطلاح میں بچہ کا پیدائش کے بعد پہلے دو سال میں ماں کے سینہ سے دودھ چوسنا رضاعت کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلََى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَكُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌo
’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہو گا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 233
پیدائش کے بعد بچہ کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت اور افزائش کے لیے ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی غذا استعمال کرے اس لیے وضعِ حمل کے بعد عورت کے پستانوں میں قدرتی طور پر دودھ جاری ہو جاتا ہے اور بچے کے لیے اس کے دل میں پیدا ہونے والی محبت و شفقت اُسے بچے کو دودھ پلانے پر اُکساتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت پر واجب کیا ہے کہ وہ بچے کو پورے دو سال دودھ پلائے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مدت ہر طرح سے بچے کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
اسلام نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ والدہ کے علاوہ دوسری عورت بھی بچے کو دودھ پلا سکتی ہے جسے رضاعی ماں کا رتبہ ملتا ہے اور رضاعی ماں کا درجہ بھی حقیقی ماں کے برابر ہے۔ اگر بچہ خدا نخواستہ ماں اور باپ دونوں سے محروم ہو جائے تو اس کو دودھ پلانے کا انتظام کرنا اس کے ورثاء کی ذمہ داری ہے۔ گویا شرعِ متین نے شیرخوار بچوں کو اپنی ماں کے علاوہ دوسری عورت کا دودھ پلانے کی اجازت دی ہے۔ اسلام میں اس کی بیسیوں مثالیں بھی ملتی ہیں اور شارع علیہ السلام نے کوئی ایسا امر بھی جاری نہیں فرمایا جس سے یہ عمل منسوخ ہوتا ہو۔ لہٰذا اسلامی اصول وضوابط کے مطابق یہ امر تو طے ہے کہ بچہ مدت رضاعت میں اپنی ماں کے علاوہ دوسری عورت کا دودھ بھی پی سکتا ہے۔
ماضی قریب تک رضاعت کا جو طریقہ کار رائج تھا اس کے مطابق بچہ براہ راست (direct) اپنی ماں یا کسی دوسری عورت کا دودھ پیتا تھا۔ آپ کے سوال سے دورِ جدید کی یہ نئی صورت سامنے آئی ہے کہ انسانی دودھ کے ذخیرہ (Human Milk Banks) بن چکے ہیں، جہاں انسانی دودہ کو ذخیرہ کر کے ضرورت مند بچوں کو دودھ مہیا کیا جا رہا ہے۔
ہماری دانست میں انسانی دودھ کو ذخیرہ کرنے اور بچوں کے مہیا کرنے کے حوالے سے چند شرائط کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے:
وَاُمَّهٰتُکُمُ الّٰتِیْ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰ تُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ.
’’اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں (تم پر حرام ہیں)۔‘‘
النساء، 4: 23
اور حدیث مبارکہ میں ہے:
يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.
’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘
بچہ جس عورت کا دودھ پیئے گا، وہ اس کی رضاعی ماں، اس عورت کا خاوند بچے کا رضاعی باپ، اس کے بیٹے رضاعی بھائی، اس کی بیٹیاں رضاعی بہنیں اور اسی طرح دیگر رشتہ دار بھی نسبی رشتوں کی طرح حرام ہو جائیں گے۔ اس عمل میں حرمت رضاعت کا خیال رکھنا ادارے کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ رشتوں کا تقدّس پامال نہ ہو اور حلال و حرام کی تمیز قائم رہے۔
ہمارے نزدیک مذکورہ بالا شرائط کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے بحالت مجبوری انسانی دودھ کا ذخیرہ کر کے ضرورت مند بچوں کو پلانا جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔