Fatwa Online

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کی قرآنی دلیل کیا ہے؟

سوال نمبر:3241

السلام علیکم مفتی صاحب! ہمارے گاؤں میں قادیانی فرقہ کے لوگ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں۔ بسا اوقات وہ قرانِ پاک پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ ایک سوال انہوں نے اٹھایا ہے کہ قرانِ مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ قرانِ پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس بلوایا ہے، اور پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کس طرف اٹھوایاہوگا؟ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے، اس کا تو کوئی طرف نہیں ہے۔ چوتھے آسمان کا ذکر بھی قران میں نہیں ہے۔ براہِ کرم اس سوال کا مدلل جواب دیں۔ شکریہ

سوال پوچھنے والے کا نام: محبتی مورزادو گورشانی

  • مقام: جیکب آباد، سندہ
  • تاریخ اشاعت: 16 جون 2014ء

موضوع:ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم

جواب:

قادیانی مرتد ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ان سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو اپنے عقیدے پر یقین ہونا چاہیئے کہ ہم صحیح العقیدہ ہیں۔ ہم اللہ اور اس کے رسول، تاجدارِ ختمِ نبوّت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اُصولوں پر چل رہے ہیں۔ وہ تو خارج از اسلام ہیں، جو منہ میں آتا ہے بکتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کو اسلام سے دور کرنا ہے، اسلام کے قریب لانا نہیں۔ جو باتیں قرآن میں اجمالاً مذکور ہیں، ان کی وضاحت حدیثِ مبارکہ اور اقوالِ صحابہ میں موجود ہے۔ قرآنِ کریم کے علاوہ حدیثِ مبارکہ اور صحابہ کے اقوال بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ قرآنِ پاک کو بغیر حدیث کے سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ قرآنِ مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھانے کا ذکر ہے، تو حدیثِ مبارکہ میں چوتھے آسمان پر ان کی موجودگی کی خبر دی گئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اللہ نے ان کو اپنے پاس اُٹھا لیا،تو اس اٹھانے کی نسبت آسمان کی جانب ہوگی، نہ کہ زمین کی جانب۔اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے الاعلیٰ (بلند، اشارہ آسمان کی جانب) تو ہے، مگر الاسفل (پست) نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًاo بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًاo

(النساء، 158،157:4)

اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیاoبلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھا لیا، اور اﷲ غالب حکمت والا ہےo

لہٰذا مرزائیوں کو دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنا عقیدہ پختہ رکھیں اور ان کو منہ نہ لگائیں، کیونکہ وہ اس طرح کے اعتراضات لگا کر سادہ لوح لوگوں کا عقیدہ خراب کرنے کی کوشش میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 20 April, 2024 05:37:14 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3241/