جواب:
اس میں شریعت کا کوئی قصور نہیں ہے، قصور اس کا اپنا ہے۔ اس نے حدوداللہ کا مذاق اُڑایا اور بلاضرورت اپنے اُوپر پابندی لگائی ہے۔ اس نے طلاق کا لفظ بولتے وقت ایک پر بھی صبر نہیں کیا، بلکہ تین دفعہ بولا۔ اب اس کے لیے یہ شریعت کی طرف سے سزا ہے۔
ہر شعبہ زندگی کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں۔ ہر ادارہ اپنی مرضی کے مطابق قاعدے اور قانون بناتا ہے۔ اس میں کچھ لچکدار ہوتے ہیں، اور کچھ انتہائی سخت۔ اسلام کے بھی کچھ قاعدے قانون ہیں۔ جن میں سے کچھ میں تو نرمی برتی جاسکتی ہے، مگر بعض انتہائی غیر لچکدار ہیں۔ مذکورہ شخص نے اسلام کے ایک قاعدے کا مذاق بناتے ہوئے کام ہی اتنا پکا کیا ہے کہ بچت کا کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑا۔ اب اگر وہ شریعت کو کوستا پھرے تو یہ اس کی نادانی ہے۔ اگر اس نے بقائمی ہوش و حواس یہ الفاظ بولے ہیں، تو پھر اس کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ وہ صرف اُسی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے جس کا اس نے نام لیا ہے۔
مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کیا پیشگی دی گئی طلاق نکاح کے بعد واقع ہو جاتی ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔