کیا والدین کا بیٹے سے اس کی بیوی چھڑوانے کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟
سوال نمبر:3093
السلام علیکم میرا بیٹا مبین حسین والد محمد حسین 1984 میں پیدا ہوا اور 2012 نومبر میں اس کی شادی کی۔ اس دوران جو ایک اچھے والدین کا فرض ہوتا ہے بخوبی نبھایا، نوکری تک لگوائی، مگر اس نے اپنے باپ کو ایک پیسہ تک نہ دیا نہ ہی ہم نے اس کا کوئی خرچہ کروایا، اپنی شادی پر بھی اس نے کوئی خرچہ نہ دیا۔ بچپن سے ہی والدین کا کہا نہ مانا اور ہمشہ اپنی مرضی کی۔ اب 1.25 سال اس کی شادی کو ہو گئے ہیں جس میں سے شروع کے 15 دن وہ اور اس کی بیوی ہمارے ساتھ ٹھیک رہے، گھر کے مسئلوں کا اندیشہ تھا اس لیے انہیں 4 مہینوں بعد اپنے دوسرے گھر میں الگ کر دیا، بیٹا والدین کو غلط سمجھتا ہے اور بیوی جھوٹی باتیں بنا کر اس کو گمراہ کرتی ہے، باتوں کی صفائی کے لیے ماں نے 5 قرآن بھی اٹھائے مختلف اوقات میں بلکہ اپنا سر بیٹے کے قدموں میں بھی رکھا کہ ہم سب گھر والے صاف ہیں مگر بیوی کی باتوں میں آ کر اس نے ایک نہ سنی اور قصور وار ٹھہرایا۔ صرف بیوی کو سچا سمجھتا ہے اور والدین سے بڑھ کر بیوی پہ جھکاؤ رکھتا ہے۔ بیوی نہ ہی خوبصورت ہے نہ ہی مالدار ہے بلکہ وہ دیندار بھی نہیں، نہ اس کے اخلاق اچھے ہیں، اس دوران ان کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا انتقال کچھ ہی گھنٹوں بعد ہو گیا۔
بیوی نہ ہی لڑکے کے والدین سے ملنا چاہتی ہے نہ ہی اس کے کسی رشتہ دار سے جب کہ اس کے اپنے گھر والوں سے مسلسل رابطے ہیں جو کہ فساد کے باعث بن رہے ہیں، دوسری طرف لڑکے کے والدین اپنے بیٹے کی جدائی میں اکثر روتے ہیں کیوں کہ وہ ان کا بڑا بیٹا ہے۔ اس کی بیوی اپنے سسر کے گھر میں ہی رہ کر منہ نہیں لگاتی گھر جاؤ بھی ملنے تو بتا نہیں کرتی نہ ہی سلام کرتی ہے، اس وجہ سے لڑکے کے والدین بہو کو نہیں رکھنا چاہتے لیکن بیٹا اپنی بیوی کو چھوڑنے پر امادہ نہیں۔ برائے مہربانی کوئی حل نکالیں کیوں کہ ہم خود سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جو اسلام کے خلاف ہو۔
اس دوران کچھ سوالات پیدا ہوئے ان کے بھی جوابات عنایت فرما دیں۔
ماں نے 5 قرآن اٹھائے اس کا حساب کیا ہو گا؟ (اللہ پاک کی ناراضگی سے بچنے کے لیے توبہ کے نفل بھی پڑھتی ہیں)
دوسرا سوال اگر بیٹے سے اس کی بیوی چھڑوائی تو اس کا طریقہ کیا ہوگا؟
تیسرا سوال کیا والدین اپنی بہو سے قطع کلامی کر لیں کیوں کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتی؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عثمان حسین
- تاریخ اشاعت: 15 فروری 2014ء
موضوع:والدین کے حقوق
جواب:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کو شادی سے پہلے دیکھنا چاہیے تھا کہ لڑکی
خوبصورت ہے یا نہیں، دیندار ہے یا نہیں؟ اور رویے کا بھی کچھ نہ کچھ تو پتہ چل جاتا
ہے۔ اگر پہلے آپ لوگوں نے یہ چیزیں نہیں دیکھیں تو اب طلاق دلوانے کی کوشش نہ کریں۔
اگر آپ ایسی حرکتیں کر کے اس کی زندگی تباہ کریں گے تو گنہگار ٹھہریں گے۔ اگر لڑکا
لڑکی آپس میں خوش ہیں تو انہیں رہنے دیں، وہ الگ مکان میں رہ رہے ہیں تو رہیں۔ اگر
وہ لڑکی آپ لوگوں کی خدمت کرتی ہے تو کرے اچھی بات ہے، اگر نہیں بھی کرتی تو اس پر لازم
نہیں ہے۔ آپ لوگوں کی خدمت کرنا آپ کے بیٹے کا فرض ہے، اس میں غیرت ہونی چاہیے
کہ اپنے والدین کو کیوں نظر انداز کر رہا ہے۔ معلوم نہیں بہو کے ساتھ آپ لوگوں کی ان
بن کس بات پر ہوئی؟ اگر آپ لوگ اس کو بیٹی بنا کر رکھتے تو امید ہے وہ بھی بیٹی بن
کر رہتی اور شاید یہ نوبت نہ آتی۔ بہرحال اب اس کو ان وجوہات کی بنا پر طلاق نہیں دلوائی
جا سکتی۔
جہاں تک آپ کے جزوی سوالات کا تعلق ہے تو ماں نے جو قرآن اٹھائے ان کی اللہ تعالی
کی بارگاہ سے معافی مانگیں، اللہ تعالی معاف کرے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ لوگ حق نہیں
رکھتے کہ اپنے بیٹے کی بیوی کو چھڑوائیں، لہذا اس معاملہ میں اللہ تعالی سے ڈریں۔ تیسری
بات یہ ہے کہ آپ کے بیٹے کو چاہیے کہ آپ لوگوں کی خدمت کرے جبکہ بہو کے لیے ضروری نہیں
ہے کہ آپ سے تعلق رکھے۔ مل جل کر رہیں تو اچھی بات ہے لیکن تعلقات مزید خراب ہونے سے
بہتر ہے کہ الگ الگ رہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:عبدالقیوم ہزاروی
Print Date : 22 November, 2024 08:06:31 AM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3093/