Fatwa Online

غیرمسلم ممالک میں مسلمان اقلیت کے لیے مورگیج کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:3076

السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے سود کو جائز قرار دیا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: اجرن ظفر

  • مقام: گجرانوالہ
  • تاریخ اشاعت: 20 اگست 2016ء

موضوع:سود

جواب:

سود قطعی طور پر حرام ہے اور اُسے حلال سمجھنا ایمان سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے غیرمسلم ممالک میں بطور اقلیت رہنے والے مسلمانوں کے لئے مورگیج (Mortgage) پہ گھر لینے کو ایک سے زیادہ دلائل اور استثنائی حالت ہونے کی بناء پر جائز قرار دیا ہے۔

مورگیج پہ گھر لینے کے جواز کی وجہ غیرمسلم ممالک میں بطور اقلیت رہنے والے مسلمان تارکین کی پوزیشن ہے۔ سود کی حرمت کا حکم قرآنِ مجید میں ہے، مگر حکم کا نفاذ منصوص نہیں بلکہ اِجتہادی مسئلہ ہے۔ شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ جب مسلمان کسی ایسے ملک میں رہ رہے ہوں جہاں حکومت غیرمسلم ہو اور وہاں معاش، رہائش اور کاروبار کے لئے ٹیکس ادا کر رہے ہوں تو بطور شہری وہ ریاستی سہولیات سے فائدہ بھی لے سکتے ہیں۔ یہ ایک اِستثنائی صورت ہے اور جس میں مسلمان اقلیت ہونے کی بنا پر نہ تو سود کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی سہولیات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ شریعت نے اضطراری حالت میں حلال کی عدم دستیابی کی صورت میں حرام کے اِستعمال کی اِجازت دی ہے، اس اِستثنائی حکم سے حرام حلال نہیں ہوا مگر اُس کے استعمال کی اجازت مل جاتی ہے۔ غیرمسلم ممالک میں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے افراد کے لیے اِضطراری حالت کی وجہ سے کچھ احکام معطل ہوجاتے ہیں۔ جب صورتحال تبدیل ہوتی ہے تو اِستثنائی جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔

مغربی اور غیرمسلم ممالک بسنے والے مسلمانوں کو جس خزانے سے سوشل سیکیورٹی، چائلڈ بینفٹ، میڈیکل بینفٹ اور پنشنز وغیرہ مل رہے ہیں کیا وہ حلال ذرائع پر مشتمل ہے؟ یقینا نہیں، اُس میں شراب اور خنزیر کا سیلز ٹیکس اور سود کا پیسہ بھی شامل ہے۔ وہاں کی حکومتیں شراب اور خنزیر کے ٹیکس اور سودی نظام سے اکٹھی ہونے والی رقوم سے لوگوں کو سوشل سیکیورٹی سمیت تمام فوائد دے رہی ہیں۔ ظاہر ہے حرام و حلال کی ملی جولی اس آمدن میں سارا کچھ حلال نہیں ہے، مگر یہ سہولیات استعمال کرنا مجبوری ہے کیونکہ ان کے بغیر وہاں زندگی گزارنا مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن ہے۔ یہی وہ اضطراری حالت ہے جس میں عام قانون معطل ہو جاتا ہے۔ مردار، خنزیر اور شراب اسلام میں حرام ہیں مگر اِستثنائی صورت میں اِسلام کا قانون مختلف ہے۔ اضطراری حالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلا اِثْمَ عَلَيْهِ.

’’پھر جو شخص مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اُس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔‘‘

(البقرة، 2: 173)

مورگیج کو حرام کھا کر جان بچانے کے برابر تو نہیں کہا جا سکتا، مگر جیسے کسی شخص کا حرام کھا کر اپنی جان بچانا اِنفرادی اِضطرار تھا، اِسی طرح غیرمسلم ملکوں میں مسلمانوں کے معاشی اِستحکام کی ضرورت ایک اِجتماعی اِضطرار ہے۔ اِنفرادی اِضطرار میں جان بچانے کا مسئلہ تھا، جبکہ اِجتماعی اِضطرار میں مسلم سوسائٹی کی اِجتماعی بقا کا مسئلہ ہے، اِس لئے یہاں اجتماعی استثنا ہے۔ اگر مورگیج کی نفی کر دی جائے تو کتنے تارکینِ وطن ہوں گے جو محنت مزدوری کر کے مکان خرید سکیں گے؟ اس لیے غیرمسلم سوسائٹی میں مسلمانوں کی اِجتماعی بقا کے لیے یہ اِستثنائی صورت بنتی ہے۔

بلاسود بنکاری کے عملی طریقہ کار اور اسلامی معیشت قیام کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصانیف ملاحظہ کیجیے:

  1. بلا سود بینکاری اور اسلامی معیشت
  2. بلا سود بینکاری کا عبوری خاکہ

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 21 November, 2024 09:02:35 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3076/