جواب:
آپ کے سوالات کی طرف آنے سے پہلے چند وضاحتیں ضروری ہیں۔ احادیث مبارکہ میں خاوند کے علاوہ میت کا تین دن سوگ کرنے کا ذکر ہے:
قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَی اُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ حِينَ تُوُفِّيَ اَبُوهَا اَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ اُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ اَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ اُن کے والد ماجد حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔ انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔
قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ اَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ اَمَا وَالله مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ اَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله يَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ لَا يَحِلُّ لِامْرَاَةٍ تُوْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اُم المؤمنین زینب بنتِ حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا۔ انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں تھوڑی سی لگاکر فرمایا: خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے، لیکن میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار ماہ دس دن ہے۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے تین دن سوگ کرنے کا ثبوت تو واضح ہے لیکن تیسرا ، دسواں ، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کیے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں جن میں بیمار کی عیادت کرنا، مرجائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله لِلْمُوْمِنِ عَلَی الْمُوْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ اَوْ شَهِدَ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حق ہیں:
ایک اور روایت میں ہے:
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر نیکی میں چھ حقوق ہیں: جب ملاقات کرے تو سلام کہے، اس کی دعوت قبول کرے، چھینک کا جواب دے، بیمار ہو تو عیادت کرے، مر جائے تو اس کے جنازہ کے پیچھے چلے اور اس کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
عموماً مرنے والے کے عزیز، رشتہ دار اور دوست احباب ہوتے ہیں، ان میں کچھ تو جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں، جبکہ کچھ بوجوہ شریک نہیں ہوسکتے۔ اب دو صورتیں بنتی ہیں: ایک تو وہ چپ کرکے بیٹھے رہیں اور آنے کی زحمت ہی نہ کریں، دوسرا یہ کہ وہ میت کے عزیز و اقارب کے پاس اظہار تعزیت کے لیے آئیں۔ بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لیے مخصوص کردئیے تاکہ دونوں کو سہولت رہے، یہی دن بعد میں تیسرا یا چالیسواں کے نام سے مشہور ہوگئے جو جنازے سے رہ گیا وہ قل خوانی پر آجائے جو اس سے رہ گیا وہ دسواں یا چالیسویں میں شریک ہوجائے۔
مقرر کردہ دنوں میں اعزاء و اقارب کے جمع ہونے کے بعدگپ شپ کے بجائے تلاوت قرآن پاک، کلمہ طیبہ اور درود و سلام وغیرہ کا ورد کرنا یا حسب توفیق صدقہ و خیرات کرنا تاکہ جمع ہونے والوں اور اہل خانہ کی طرف سے مرحوم کو ثواب ارسال کردیا جائے اور دعائے مغفرت کی جائے، تو یہ باعث ثواب ہے اور میت کے لیے کار آمد ہے۔
رہا مسئلہ کھانا کھلانے کا تو عرض ہے کہ جب لوگ اظہار تعزیت کے لیے آتے ہیں تو کچھ دور سے آرتے ہیں اور کچھ نزدیک سے۔ اگر ایسے موقع پر کھانا نہ کھلائیں تو یہ بری بات ہے ویسے بھی حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ الله عَنْهُمَا اَنَّ رَجُلًا سَاَلَ النَّبِيّ اَيُّ الإِْسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَاُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلاؤ، اور آشنا و ناآشنا کو سلام کرو۔
لہٰذا درود و سلام پڑھنا، صدقہ و خیرات کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا، خلوص و دل سے ہو، رزق حلال سے ہو تو نیکی ہے اور کارِ ثواب ہے۔ ان تمام ثوابوں کو جمع کرکے مرنے والوں کے نام بھیجنا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔ الاّ یہ کہ لواحقین غریب ہیں تو ان کی طرف سے کھانا بری بات ہے۔ مرنے کے بعد مرنے والے کو نیکیوں کی ضرورت ہے، شاید یہی ذکر و نعمت اور صدقہ و خیرات اس کے لیے بخشش کا وسیلہ بن جائے۔ میت کو ایسے اعمال کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ شریعت میں قل، دسواں، چالیسواں کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے عرف میں ہے، اچھی چیز ہے، مستحب ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں۔ مزید وضاحت کے لئے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’’ایصال ثواب کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ کریں۔
اب آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
عَنْ عَبْدِ الله عَنِ النَّبِيِّ قَالَ مَنْ عَزَّی مُصَابًا فَلَهُ مِثْلُ اَجْرِهِ
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جس نے کسی مصیبت زدہ کی دلجوئی (تعزیت) کی اس کے لئے اتنا ہی اجر ہے جتنا مصیبت زدہ کے لئے۔
اور حضرت ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ رَسُولُ الله مَنْ عَزَّی ثَکْلَی کُسِيَ بُرْدًا فِي الْجَنَّة
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے غمزدہ کی دلجوئی (تعزیت) کی اس کو جنت میں چادر اوڑھائی جائے گی۔
عَنْ اَبِي مُوسَی قَالَ دَعَا النَّبِيُّ بِمَاءٍ فَتَوَضَّاَ بِهِ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ اَبِي عَامِرٍ وَرَاَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَة فَوْقَ کَثِيرٍ مِنْ خَلْقِکَ مِنَ النَّاسِ
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوا کر اس سے وضو فرمایا، پھر اپنے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی: اے اللہ! عبید ابو عامر کی مغفرت فرما اور میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر دعا کی: اے اللہ! قیامت کے روز اپنی مخلوق سے اس کا مرتبہ اکثر لوگوں سے بلند رکھنا۔
بخاري، الصحیح، 4: 1571، 5: 2345، رقم: 4068، 6020
ایک روایت میں ہے:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ کَانَ رَسُولُ الله إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ لَمْ يَحُطَّهُمَا حَتَّی يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو اپنے چہرہ اقدس پر پھیرنے سے پہلے (ہاتھ) نیچے نہ کرتے تھے۔
ترمذي، السنن، 5: 463، رقم: 3386
مذکورہ بالا احادیث میں آقا علیہ الصلوٰ والسلام سے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت ہے اور درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہاتھ اٹھانے کی فضیلت بیان کی گئی ہے:
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله إِنَّ رَبَّکُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالَی حَيِيٌّ کَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ اَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک تمہارا رب بڑا حیادار اور کرم کرنے والا ہے۔ اُسے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ اُس کے بندوں میں سے کوئی (دعا کے لئے اس کے سامنے) اپنے ہاتھ اٹھائے اور وہ انہیں خالی (ان میں خیرات ڈالے بغیر) واپس لوٹا دے۔
نوٹ: ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات ہیں، اختصار کی خاطر چند روایات بیان کی ہیں۔ مزید وضاحت کے لئے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’’المنہاج السوي‘‘ کے باب ’’الدُّعَاءُ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَۃ‘‘ (فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا) کا مطالعہ کریں۔
إِنَّ ِلله مَا اَخَذَ وَلَهُ مَا اَعْطَی وَکُلٌّ عِنْدَهُ بِاَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ
جو لیا وہ بھی خدا کا ہے، اور جو دیا وہ بھی اسی کی ملکیت ہے۔ ہر ایک چیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے (یعنی مرحوم کی زندگی متعین تھی)۔ لہٰذا صبر کرو! اور ثواب کی اُمید رکھو۔
بخاري، الصحیح، 1: 431، رقم: 1224
عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ رَسُولُ الله اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ اَتَاهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ اَوْ اَمْرٌ يَشْغَلُهُمْ
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضي اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو کہ ان پر صدمہ آیا ہے جس نے ان کی توجہ اس سے ہٹا دی ہے۔
احمد بن حنبل، 1: 205، رقم: 1751
ابن ماجہ، السنن، 1: 514، رقم: 1610
آج کل بعض شہروں میں کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو ایسے مواقع پر اہل میت کے لئے کھانا تیار کر کے حکم نبوی پر عمل کرتے ہیں۔ یونہی بعض حساس پڑوسی مسلمان اپنی طرف سے کھانے کا بندوبست کر دیتے ہیں، بلکہ کئی کئی دن تک اہل میت کے لئے کھانا بھیجا جاتا ہے۔ مقامی عزیزوں کو توویسے ہی اپنے گھروں پر کھانا کھانا چاہیے، ہاں وہ دور دراز سے آنے والے یا گھر والے اس سے فائدہ اٹھائیں گے، کم از کم اہل میت کو اس طرف سے تو پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہیے۔ افسوس! کہ ہم نے اس حکم سے رو گردانی کر کے اہل میت کے لئے الٹے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ امیر غریب سب کی دعوت عام کی جاتی ہے۔ استغفر اللہ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ کھانا ایصال ثواب کے لئے ہے تو پھر بھی دیکھیں اس پر خرچ کس کا اٹھ رہا ہے؟ کیا یہ خیرات مرنے والے کے ترکہ سے ہے؟ اگر ایسا ہے تو خوب سمجھ لیجئے کہ مرنے والے کے کُل ترکہ سے پہلے میت کی تجہیز و تکفین کی جائے۔ پھر جو بچے اس سے اگر میت کے ذمہ قرض ہے تو وہ اتارا جائے۔ بقایا ترکہ میں سے میت کی وصیت پوری کی جائے جو کہ کُل ترکہ کی ایک تہائی سے زائد نہ ہو، اس کے بعد میت کے ترکہ میں تمام وارثوں پر مقرر تناسب سے تقسیم کیا جائے۔ میت کے تمام ترکہ میں تمام وارثوں کا حق ہوتا ہے، اور جب تک وہ تمام ورثاء اجازت نہ دیں آپ اس جائیداد میں کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس غیر منقسم جائیداد میں سے وارثوں کی اجازت کے بغیر خیرات کرنا حرام ہے، اس میں کوئی ثواب نہیں۔ اگر اہل خانہ کسی وارث یا بچوں کا حق نہیں مارتے، اور اپنی جیب سے کرتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ میت کے نا بالغ بچے اہل ولایت نہیں وہ راضی خوشی اگر اجازت بھی دیں تو غیر منقسم ترکہ سے سوئم، چہلم وغیرہ پر وہ مال خرچ کرنا جائز نہیں۔ البتہ ورثاء بالغ ہیں، عقلمند ہیں، حاضر ہیں، اور خوشدلی سے ختم وغیرہ غیر منقسم ترکہ سے دلاتے ہیں تو جائز ہے۔ یہی صدقہ و خیرات کی تمام صورتیں ہیں چہلم وغیرہ پر دعوت نامے اور دوسرے تکلفات یہ سب جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی نت نئی ایجادات ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ غمی و خوشی کے مواقع پر اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں۔ نقل اتارنا ہے تو نیک کاموں میں اتاریں، گناہوں میں دوسروں کی نقل نہ اتاریں۔ دوسروں کے محلات دیکھ کر اپنی جھونپڑی کو آگ نہ لگائیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔