جواب:
اسلامی معاشرہ قائم کرنا اس لئے ضروری ہے تاکہ شر کے خاتمے اور خیر کے فروغ کر یقینی بنایا جا سکے لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ہر فرد معاشرہ کو اپنی اپنی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ کیونکہ اسلام انسانیت کی بقاء، فلاح و بہبود اور ارتقاء کے زریں اصولوں کا امین ہے۔ حق کی پاسداری، انسانی معاشرے میں باہمی حقوق کا احترام اور اعلیٰ اقدار کا قیام و فروغ اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :
وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہوo‘‘
النساء، 4 : 36
اسلامی معاشرہ کا قیام اسلام کا اجتماعی نصب العین ہے۔ اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں تمام تر ہدایت دو سرچشموں سے حاصل ہوتی ہے : علم رسالت اور عملِ رسالت۔ علم رسالت قرآن حکیم ہے اور عملِ رسالت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہے۔ اسلامی معاشرے کا قیام اس لیے ضروری ہے تاکہ ہر شخص اپنے حق کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے فرض کی ادائیگی پر مامور ہو جائے یعنی معاشرتی زندگی کی بنیاد ’’مطالبہ حقوق‘‘ کے تصور کی بجائے ’’ادائیگی فرائض‘‘ کے تصورپر ہو تو ہر ایک کا حق ازخود ادا ہوتا رہے گا۔ مثال کے طورپر والدین کا فرض ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت کریں، اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی عزت وخدمت کریں، بیوی کا فرض ہے کہ خاوند کی اطاعت کرے، تو خاوند کا فرض ہے بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور اس کا نان و نفقہ پورا کرے۔ اس طرح طاقتور کا فرض ہے کہ کمزور کی مدد کرے اور امیر کا فرض ہے کہ غریب کا معاشی تعطل دور کرے۔ جب لوگ دوسروں کے پاس اپنا حق مانگنے کی بجائے ان کے پاس چل کر ان کاحق ادا کرنے جائیں گے تو جو معاشرہ قائم ہو گا وہ اسلامی معاشرہ ہو گا اور اسلامی معاشرے کا قیام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اسلام کے نظامِ قانون میں کوئی ایسی روش پروان نہ چڑھے جس سے افراد معاشرہ کے حقوق پر زد پڑے بلکہ تحفظِ حقوق کی روایت کو فروغ ملے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔