Fatwa Online

طاغوت سے کیا مراد ہے؟ کیا جمہوریت طاغوتی نظام ہے؟

سوال نمبر:2768

السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ طاغوت سے کیا مراد ہے؟ کیا موجودہ حکومت بھی طاغوت ہے؟ اور کیا جمہوری نظام طاغوتی نظام ہے؟ کیونکہ یہ کتاب و سنت کی بجائے انسانوں پر انسانوں کے بائے ہوئے قانون نافظ کرتے ہیں اور سورہ مائدہ آیت نمبر 44 میں‌ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ (اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہے" اس آیت کا مفہوم بیان کر دیں اور کیا طاغوت کے خلاف جہاد فرض نہیں؟ تو پھر پاکستان میں جہاد کیوں نہیں ہو رہا؟ بعض حضرات کہتے ہیں طاغوت کبھی مسلمان نہیں ہو سکتا اس کی بھی وضاحت فرما دیں؟ اگر اس موضوع پر کوئی کتاب ہو تو وہ بھی بتا دیں؟ جواب دینے پر آپ کا ممنون ہوں گا۔

سوال پوچھنے والے کا نام: احمد

  • مقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 16 نومبر 2013ء

موضوع:ایمانیات

جواب:

شیطان، گمراہوں کا سردار، بت، دیو، خدا کے سوا کسی اور کی پرستش کرنے والا، یہ سب طاغوت کے معانی ہیں۔ جو بھی ان معانی پر پورا اترے وہ طاغوت ہے۔

ہمارے موجودہ نظام حکومت میں بھی جو جو کام مذکورہ بالا معانی کے مطابق ہیں سب طاغوتی ہیں مثلا کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ فراڈ، غنڈہ گردی، دھاندلی، ملاوٹ، رشوت وغیرہ سب شیطانی فعل ہیں۔ لہذا جو نظام یہ تمام امور سرانجام دے رہا ہے وہ طاغوتی ہے۔ آپ خود صاحب عقل ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ موجودہ نظام میں مذکورہ بالا میں سے کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ فیصلہ خود کریں۔

جمہوریت اصل میں وہ نظام حکومت ہے جس میں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت حکومت چلاتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ لہذا حقیقی جمہوری نظام طاغوتی نظام نہیں ہے بلکہ کتاب و سنت کا نظام ہی اصل میں حقیقی جمہوریت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی دیکھ لیں ہمارے لیے نمونہ حیات ہے، کبھی کوئی فیصلہ ایسا کیا جو جمہوری نہ ہو۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کو ہی اپنایا لوگوں کی رائے کا احترام کیا۔ یہ الگ بات کہ آج کل جمہوریت کے نام پر لوگوں کو سادہ اور جاہل سمجھ کر دھوکہ دیا جا رہا ہے اور دن رات جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے لیکن ایک ذرہ برابر بھی جمہوریت پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔

جس طرح کتے کو بکرا بکرا کہنے سے وہ بکرا نہیں بن جاتا، اسی طرح غنڈہ گردی، دھوکہ دہی، کرپشن اور آمریت کو جمہوریت جمہوریت کہنے سے یہ نظام جمہوری نہیں بن سکتا۔ لہذا اصول وضوابط ہمیں کتاب وسنت نے دے دیے ہیں، اب انسانوں ہی کی ذمہ داری ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے نظام وضع کریں اور عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کریں اور انہیں ہر طرح کی جائز سہولیات مہیا کریں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی نے جمہوریت کو فروغ دیا ہے یعنی مشورے سے چلنے کا سبق ہے :

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ.

(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے۔

آل عمران، 3 : 159

دوسرے مقام پر ہے:

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ.

اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں۔

الشوری، 42 : 38

المختصر یہ کہ قرآن وحدیث کے اصولوں کے مطابق لوگوں کی رائے سے نظام وضع کیا جائے جس میں حکمران عوام کو سامنے جوابدہ ہوں اور اس نظام میں حاکم ومحکوم کی عزت وناموس جان ومال کا تحفظ ہو۔ تمام تر ضروریات زندگی با آسانی دستیاب ہوں۔

اب آتے ہیں سورۃ المائدہ کی آیت مبارکہ کی طرف جس کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے۔

مَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ.

اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں۔

المائدۃ، 5 : 44

مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی وضاحت کے لیے حضرت علامہ جسٹس پیر کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی (تفسیر ضیاء القرآن) کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:

یہاں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ اسی رکوع کی آیت نمبر 45 میں ایسے لوگوں کو ظالم کہا گیا اور آیت نمبر 47 میں ایسے لوگوں کو فاسق کہا گیا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ آیات صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں کیونکہ کسی خاص شخص کے متعلق کسی آیت کے نازل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آیت بس اسی سے مخصوص ہو کر رہ گئی۔ اس کا حکم اب کسی دوسرے شخص پر نافذ نہیں ہو گا۔ اس لیے صحیح یہی ہے کہ اسے یہود کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اس کا مفہوم عام رکھا جائے۔ چنانچہ علماء اہل سنت نے من لم يحکم بما انزل الله مستهينا به منکر اله۔ یعنی جو شخص اللہ کے حکم کی توہین اور تحقیر کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ کافر ہو گا۔ کیونکہ احکام شرعیہ کی توہین اور تحقیر کی صرف وہی جرات کر سکتا ہے جس کا دل ایمان ویقین کے نور سے خالی ہو۔ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کو کافر، ظالم اور فاسق کہنے کی بڑی لطیف وجہ بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں :

فکفرهم الانکاره وظلمهم بالحکم بخلافه وفسقهم بالخروج عنه.

یعنی اس وجہ سے کہ انہوں نے احکام الہیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا وہ کافر ٹھہرے۔

اس وجہ سے کہ انہوں نے اس قانون کو چھوڑ دیا جو عین عدل وانصاف تھا، وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی حدوں کو توڑا وہ فاسق کہلائے اس کے بعد بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ بھی جائز ہے کہ یہ تینوں لفظ کفر، ظلم اور فسق احکام الہیہ سے سرتابی کرنے والوں کے مختلف حالات کے پیش نظر کہے گئے ہوں۔ یعنی اگر اس نے یہ سرتابی ازراہ تمرد وتحقیر کی تو وہ کافر ہے اور اگر دل میں انکار تو نہیں بلکہ ویسے حکم عدولی ہو گئی تو وہ ظالم وفاسق ہو گی۔

ويجوز ان يکون کل واحدة من الصفات الثلاث باعتبار حال انصمت الی الامتناع عن الحکم به ملائمة لها.

سچ تو یہ ہے کہ ان آیات کے بعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنے لیے، اپنی قوم اور اپنی رعایا کے لیے ایسے قوانین تجویز کرے جو احکام خداوندی کے خلاف ہوں۔ (بیضاوی)

محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن، 1 : 474، 475، ضیاء القرآن پبلیکیشنز، گنج بخش روڑ لاہور

مذکورہ بالا بحث کے مطابق احکام شرعیہ پر عمل نہ کرنے والا فاسق و ظالم ہو گا اور جو احکام شرعیہ پر عمل بھی نہ کرے بلکہ ان کو توہین وتحقیر کرے وہ کافر ہو گا۔

طاغوت اور طاغوتی نظام کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن جہاد صرف قتال نہیں ہے۔ یعنی گن پکڑ کر جو ملے اس کو قتل کرنا ہی جہاد نہیں ہے نہ ہی ایک خاص طبقے کے مطابق خود کش حملے کر کے ظاغوت کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے۔ بلکہ ظاغوت کے خلاف جہاد کے لیے لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جہالت ختم کرنی ہوتی ہے اور لوگوں میں تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا پاکستان میں بھی جو ادارہ، تحریک یا جماعت ظاغوتی نظام کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر رہی ہے۔ لوگوں میں شعور پیدا کر رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ اس نظام میں یہ یہ خرابیاں ہیں۔ اور اس طاغوتی نظام کو ختم کرنے کے لیے پوری جد وجہد کر رہی ہے وہی تحریک یا جماعت طاغوت کے خلاف جہاد کر رہی ہے۔ جو اس نظام کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جہاد میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

یہ تو صاف ظاہر ہے کہ طاغوت مسلمان نہیں ہے۔ کفر ہے، شیطان ہے۔

مزید مطالعہ کے لیے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی درج ذیل کتب پر کلک کریں۔

دہشت گردی اور فتنہ خوارج

اسلامی ریاست میں غیر مسلم کے جان ومال کا تحفظ

سیاسی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

میثاق مدینہ

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 23 November, 2024 02:47:21 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2768/