اثر ورسوخ کے ساتھ حق تلفی کر کے پلاٹ لینے والوں پر کیا حکم ہے؟
سوال نمبر:2711
السلام علیکم ! کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلے کے کہ، ہمارا شہر پاور لوم کی صنعت کیلئے مشہور ہے۔ ہمارے شہر کے M.L.A مفتی محمد اسماعیل ہیں جو کہ جمیعۃ العلما ہند مالیگاوں کے سرپرست ہیں۔ پاور لوم میں جب کوئی خرابی واقع ہو جاتی ہے تو اسے ہیڈ میکانک (مقادم) درست کرتا ہے۔ حکومت مہاراشٹر کی یشونت راو چوہان اوپن یونیورسٹی نے ایک اسکیم کے تحت ہیڈ میکانک (مقادم) حضرات کا (جو کہ پڑھے لکھے نہیں ہیں) امتحان لیا اور انہیں سند دی۔ یہ امتحان 3 مرتبہ ہوا۔ دو مرتبہ میں سند دی گئی۔ اس کے بعد تمام مقادم حضرات نے متحد ہو کر ہماری کارپوریشن سے کالونی کی مانگ کی جو پاس ہو گئی۔ تیسری مرتبہ کے امتحان میں کالونی ملے اس کے لئے کافی لوگوں نے امتحان دیا۔ اس امتحان میں مالیگاوں جمیعۃ العلما کے کم از کم 200 علمائے کرام نے شرکت کی جو کہ نہ تو مقادم ہیں اور نہ ہیڈ میکانک۔ سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کر کے وہ پاس ہو گئے۔ کیا ان لوگوں کا سند لینا اور کالونی لینا جائز ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیں کیوں کہ علمائے کرام کو اس کا جواب دینا ہے۔ ان کا شمار علمائے حق میں ہو گا یا علمائے سو میں؟ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یا جنت؟ غریب مقادموں کا حق مارنا جائز ہے یا نا جائز ؟ جواب ضرور دیں نوازش ہو گی۔
سوال پوچھنے والے کا نام: شفیق احمد محمد صادق
- مقام: مالیگاوں، انڈیا
- تاریخ اشاعت: 29 نومبر 2013ء
موضوع:معاملات
جواب:
محض فتوی لینے سے ان لوگوں کا کچھ نہیں بگڑے گا، کچھ کام ایسے ہوتے ہیں ان کے لیے
اثر ورسوخ رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا آپ ان جعلی ڈگریاں حاصل کرنے والوں
اور غیر قانونی طریقوں سے کالونی لینے والوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کروائیں،
وہاں پر ثبوت پیش کریں جب قانونی طور پر ثابت ہو جائے گا کہ ان لوگوں نے حقدارکا حق
مار کر غلط طریقوں سے ڈگریاں حاصل کیں اور ناحق کالونی حاصل کی تو پھر کس کو معلوم
نہیں کہ جھوٹ، دھوکہ، فراڈ اور غریبوں اور حقداروں کا حق مارنے کو جائز کہتے ہیں یا
ناجائز؟
قرآن مجید میں ہے:
وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ
وَتُدْلُواْ بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ
النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ.
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ
مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم
(بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)
البقرۃ، 2 : 188
اگر واقعی ان لوگوں نے یہ حرکت کی ہے تو پھر ان کو علماء نہیں کہنا چاہیے، وہ اسلام
کو بدنام کررہے ہیں۔ اسلام ہو یا کوئی اور مذہب سب چوری، دھوکہ، فراڈ وغیرہ کو برا
ہی سمجھتےہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:عبدالقیوم ہزاروی
Print Date : 21 November, 2024 05:36:07 PM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2711/