Fatwa Online

کیا بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر اپنی رقم ضرورت مندوں میں‌ تقسیم کر سکتی ہے؟

سوال نمبر:2532

السلام علیکم میرا سوال ہے کہ کچھ پیسے میرا خاوند مجھے میرے خرچے کے لیے دیتا ہے اور کچھ میں‌ گھر کے خرچے میں‌ سے بچا لیتی ہوں۔ میں‌ بس ضرورت کی ہی چیز لیتی ہوں باقی محفوظ کر لیتی ہوں۔ کیا میں ان پیسوں سے خاوند کو بتائے بغیر صدقہ خیرات یا دوسروں کی مدد یا رشتہ داروں میں‌ کسی کی مدد کر سکتی ہوں اور دوسرا سوال یہ ہے کہ شادی ہونے کے بعد ایک عورت پر کس حد تک فرض ہے کہ وہ مشکل حالات میں اپنی ماں کا ساتھ دے۔ مشکل حالات میں کیا عورت اپنے گھر والوں یا رشتے داروں میں‌ کسی کے پیسوں سے مدد کر سکتی ہے؟ خاوند کو بتائے بغیر تاکہ سسرال والوں میں‌ عزت رہ جائے۔ اور جو پیسے عورت خود جاب کر کہ کماتی ہے کیا وہ پیسے بھی اپنی مرضی سے استعمال کر سکتی ہے مطلب دوسروں کی مدد کرنا یا وہ بھی خاوند کو بتانا لازمی ہے۔ میرے خاوند تھوڑا کنجوس ہے وہ کہتا ہے کہ جمع کرتے رہو جبکہ میں‌ چاہتی ہوں‌ کہ کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کر دی جائے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عریشہ

  • مقام: لندن
  • تاریخ اشاعت: 23 اپریل 2013ء

موضوع:معاملات  |  رشتہ داروں کے حقوق

جواب:

میاں بیوی کے تعلقات اس طرح کے ہونے تو نہیں چاہیں کہ وہ ایک دوسرے سے مشورہ کیے بغیر کوئی بھی کام کریں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی ایسا شوہر ہو کہ وہ اپنی بیوی کو صدقہ خیرات کرنے سے بھی منع کرے تو ایسی صورت میں بیوی بغیر اس کی اجازت لیے صدقہ خیرات کر سکتی ہے، لیکن مناسب حد تک کرے۔ اگر کوئی زیادہ رقم صدقہ خیرات کرنا چاہے یا اپنے ماں باپ رشتہ داروں میں سے کسی حقدار پر خرچ کرنا چاہے تو خاوند سے مشورہ کیے بغیر نہ کرے تاکہ اگر وہ حساب بھی لے تو آپ کو مشکلات پیدا نہ ہوں۔

جو عورت ملازمت کر کے کماتی ہے وہ رقم تو اسی کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا مال کسی کو دینے کے لیے خاوند سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ اس کو مناسب جگہ اور مناسب حد تک استعمال کرے، درمیانہ راستہ اختیار کرے حد سے نہ بڑھے۔ لہذا مناسب تو یہی ہے کہ بیوی مشورے سے ہی صدقہ خیرات کرے، اگر خاوند کنجوس ہو تو بغیر اجازت بھی صدقہ خیرات یا ضرورت مند رشتہ داروں کی خدمت کی جا سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 23 November, 2024 02:34:11 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2532/