جواب:
لفظ صلوٰۃ کا لغوی معنی دعا و استغفار اور رحمت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ابن منظور، لسان العرب، 14 : 465، 466
وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ.
’’اور (آپ) ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے۔‘‘
التوبة، 9 : 103
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ.
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔‘‘
الأحزاب، 33 : 43
اصطلاحِ شریعت میں صلوٰۃ سے مراد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی بندگی کا وہ پاکیزہ طریقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بامرِ الٰہی جن مخصوص افعال کو مخصوص اوقات میں ادا کرنے کی تلقین کی اسے عام الفاظ میں نماز کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًاO
’’بیشک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
النساء، 4 : 103
علامہ جزیری صلوٰۃ کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اصطلاح فقہ میں صلوٰۃ ان اقوال و افعال کا مجموعہ ہے جو تکبیرِ تحریمہ سے شروع اور سلام پر ختم ہوتا ہے۔‘‘
جزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 : 279
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔