جواب:
چونکہ عام مسلمان قرآن و حدیث سے احکامِ شرع کے قواعد و ضوابط کو سمجھ کر مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے جمہور اہلِ سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ شرعی احکام و مسائل میں مذکورہ ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ مثلا حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر‘‘ (طبرانی، معجم الاوسط جلد 3، صفحہ 343، رقم: 3348) ’’جس نے جان بوجھ کر نماز کو ترک کیا پس تحقیق اس نے کفر کیا۔‘‘
اس میں اگر ظاہر حدیث کو دیکھیں تو ترجمہ بھی آسان ہے لیکن اس کی حقیقی روح کو سمجھنا مجتہد کا کام ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ عام مسلمان تفرقہ و انتشار سے بچ جاتا ہے۔ جن ائمہ نے ان مسالک کی بنیاد ڈالی وہ اپنے تقویٰ، زہد و ورع، ثقاہت و دیانت، علم و فکر اور کردار کے حوالے سے اعلیٰ ترین مقام و مرتبہ کی حامل قرون اولیٰ کی معروف ہستیاں ہیں۔ لہٰذا وقت کی سہولت کی خاطر انہوں نے نہایت جانفشانی اور دیانت و لیاقت سے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا۔ شریعت اسلامی کے ایسے اصول و قواعد و ضع کئے جس سے عام مسلمانوں کو دین فہمی اور اس پرعمل پیرا ہونے میں فائدہ ہوا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔