جواب:
1۔ اسلام میں زبردستی شادی کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے :
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.
(النِّسَآء ، 4 : 3)
تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔
اور حدیث پاک میں ہے :
ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال : لا تنکح الايم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن.
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے"۔
بخاری، الصحيح، 5 : 974، رقم : 4843، باب لاتنکح الاب وغيره البکر والثيب الابرضاها، دار ابن کثير اليمامة، بيروت.
مسلم، الصحيح، 2 : 1036، رقم : 1419، باب استئذان الثيب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت، دار احياء التراث العربی بيروت،
معلوم ہوا قرآن وحدیث میں زبردستی شادی کی گنجائش نہیں ہے۔ لڑکا لڑکی دونوں کا رضامند ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو تو نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے لڑکی کا چچا اگر لڑکی کی مرضی کے بغیر اپنے بیٹے سے نکاح کرے گا تو وہ نکاح قابل قبول نہیں ہو گا۔
لڑکی کے ساتھ زبردستی نکاح کرنا کسی کا حق نہیں ہے، نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے نہ ہی ہمارا ملکی قانون، اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کرے تو اس کی رپورٹ متعلقہ ادارے کو فراہم کریں تاکہ لڑکی ظلم وستم ہونے سے بچ سکے۔
2۔ اگر وہ لڑکی آپ کے ساتھ شادی کرنے پر رضامند ہو تو پھر آپ کا اسرار کرنا درست ہے ورنہ نہیں۔
3۔ آپ اس معاملے کو بااثر کے ذریعے حل کریں، بھاگنے دوڑنے سے حالات زیادہ خراب ہونگے اور گھر کے باقی افراد بھی ذلیل وخوار ہو جائیں گے۔ یہ بہتریں حل ہے۔ نہیں تو پھر اس معاملہ کو عدالت میں لے جایا جائے تاکہ لڑکی پر ظلم نہ ہو۔
المختصر نکاح کے لیے لڑکے لڑکی دونوں کا حق مہر کے عوض دو گواہوں کی موجودگی میں رضامندی سے ایجاب وقبول کرنا ضروری ہے ورنہ نکاح منعقد نہ ہو گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔