Fatwa Online

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا مقام و مرتبہ اور مختصر تعارف کیا ہے؟

سوال نمبر:228

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا مقام و مرتبہ اور مختصر تعارف کیا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:

  • تاریخ اشاعت: 22 جنوری 2011ء

موضوع:فقہ اور اصول فقہ  |  فقہ اور اصول فقہ

جواب:

جیسا کہ آپ کے لقب سے ظاہر ہے کہ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ کا اصل نام نعمان بن ثابت بن زوطا رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ 80 ہجری بمطابق 699ء میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔

آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان سے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ کا سب سے پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں آپ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ آپ تابعی ہیں۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے علمِ حدیث حاصل کیا۔ آپ کے علاوہ امام مالک سمیت ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ میں کوئی امام بھی تابعی نہیں آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی براہِ راست زیارت کی اور ان سے احادیث نبوی کا سماع کیا۔

امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لئے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔

دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔

ایک دفعہ حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہوگیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا : پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب گنے گئے تو 80 تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا : اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کئے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :

1۔ امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ

2۔ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمۃ اﷲ علیہ

3۔ امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ

4۔ امام زفر بن ہذیل رحمۃ اﷲ علیہ

5۔ امام عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ

6۔ امام وکیع بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ

7۔ امام داؤد بن نصیر رحمۃ اﷲ علیہ

آپ کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں :

الفقه الأکبر، الفقه الأبسط، العالم والمتعلم، رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتّی، وصية الامام أبي حنيفة.

علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم اﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔

آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔ امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں :

’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘

آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیرو کار ہے۔

بغداد شریف میں 150 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ پہلی بار نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع تھا، اس پر بھی آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا یہاں تک کہ چھ بار نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 22 November, 2024 02:51:39 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/228/