جواب:
قرآن مجید فرقان حمید میں انسانی تخلیق کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے لیکن یہاں آپ کے سوال سے متعلقہ آیات درج ذیل ہیں۔
1. هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ
(الانعام، 6 : 2)
(اﷲ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا۔
2. مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى
(طه، 20 : 55)
(زمین کی) اسی (مٹی) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوسری مرتبہ (پھر) نکالیں گے۔
3. وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
(الحجر، 15 : 26)
اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا۔
4. وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ
(المؤمنون، 23 : 12)
اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی۔
5. إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ
(الصافات، 37 : 11)
بیشک ہم نے اِن لوگوں کو چپکنے والے گارے سے پیدا کیا ہے۔
6. هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ
(المؤمن، 40 : 67)
وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی۔
7. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ
(الرحمن، 55 : 14)
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایاo
8. يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ
(النساء، 4 : 1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی۔
9. وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ
(الانعام، 6 : 98)
اور وہی (اﷲ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (یعنی ایک خلیہ) سے پیدا فرمایا ہے۔
10. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
(النحل، 16 : 4)
اُسی نے انسان کو ایک تولیدی قطرہ سے پیدا فرمایا۔
11. وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا
(الفرقان، 25 : 54)
اور وہی ہے جس نے پانی (کی مانند ایک نطفہ) سے آدمی کو پیدا کیا۔
12. مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ
(لقمان، 31 : 28)
تم سب کو پیدا کرنا اور تم سب کو (مرنے کے بعد) اٹھانا (قدرتِ الٰہیہ کے لئے) صرف ایک شخص (کو پیدا کرنے اور اٹھانے) کی طرح ہے۔
13. ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ
(السجده، 32 : 8)
پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ (یعنی نطفہ) سے چلایا۔
14. خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا
(الزمر، 39 : 6)
اس نے تم سب کو ایک حیاتیاتی خلیہ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا۔
15. أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى
(القيامة، 75 : 37)
کیا وہ (اپنی اِبتداء میں) منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا جاتا ہے۔
16. إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ
(الدهر، 76 : 2)
بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا فرمایا۔
17. فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَo خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍo يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِo
(الطارق، 86 : 5،6،7)
پس انسان کو غور (و تحقیق) کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہےo وہ قوت سے اچھلنے والے پانی (یعنی قوی اور متحرک مادہ تولید) میں سے پیدا کیا گیا ہےo جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان (پیڑو کے حلقہ میں) سے گزر کر باہر نکلتا ہےo
18. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍo
(العلق، 96 : 2)
اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیاo
مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالی نے انسانی زندگی کے کیمیائی اور حیاتیاتی
ارتقاء کے بارے میں بیان کر دیا ہے۔ اب ان کی وضاحت کے لیے مزید مطالعہ کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی بیان کرتے ہیں:
'قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء کم وبیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں:
محمد طاهر القادری، انسان اور کائنات کی تخليق و ارتقاء : 17، 18، منهاج القرآن پبلی کيشنز لاهور
مذکورہ بالا مراحل کی وضاحت درجہ بالا کتاب سے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا آیات میں انسان کے جسم کی تیاری میں مٹی، پانی، گارے کا بھی ذکر آتا ہے اور نطفہ کا بھی کہیں آخر مرحلے میں سلالہ یعنی جوہر کا بھی ذکر آتا ہے، جوہر کسی بھی چیز کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جس جوہر کا ذکر کیا گیا ہے یہ کیا ہے؟
ابو القاسم الحسین بن محمد بیان کرتے ہیں۔ سلالۃ من طین سے مراد ہے :
الصفو الذی يسل من الارض.
'مٹی میں سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کر دیا گیا ہو'۔
ابو القاسم الحسين بن محمد، المفردات فی غريب القرآن، 1 : 237، دار المعرجة. لبنان
معلوم ہوا مذکورہ بالا سات مراحل کے آخر تک انسانی زندگی کا کیمیائی عمل سلالہ (جوہر) پر ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد انسانی زندگی کا حیاتیاتی ارتقاء شروع ہو جاتا ہے، جس کے پھر کچھ مراحل ہیں، جس کے طے کرنے کے بعد ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا اصل مقصد اس بات کو سمجھنا ہے کہ انسان مٹی سے کیسے پیدا کیا گیا؟ وہ مٹی کون سی ہے؟ جس سے انسان پیدا ہوا اور پھر اس کو اسی مٹی میں دفن کیسے کیا جائے گا؟ کیونکہ بظاہر تو نظر نہیں آتا کہ انسان کے پیدا ہونے کے لیے مٹی کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جو خوراک کھاتے ہیں، اس میں سبزیاں، پھل یا کوئی بھی چیز اس کا تعلق بلا واسطہ یا بالواسطہ مٹی سے ہوتا ہے۔ گندم، چاول، چینی کو لے لیں یا سبزیاں لے لیں یا پھر کوئی بھی کھانے کی چیز اس کو جن جن اجزاء سے تیار کیا جاتا ہے، وہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں، اب انسانی تخلیق میں قرآن نے بہت سے مراحل بیان کیے ہیں، مٹی کا بھی ذکر ہے، نطفہ کا بھی ذکر ہے، معلوم ہوا کہ جب مٹی سے پیدا ہونے والی خوراک استعمال کی جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی زمین سے حاصل ہو گی، اس میں سے یہی نطفہ بنتا ہے، اسی کی Purified شکل کو جوہر کہتے ہیں۔ اسی کے اجزا ملتے ہیں تو حیاتیاتی ارتقاء ہوتا ہے، اسی کے مراحل طے کرنے کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو معلوم ہو گیا کہ یہ انسانی جسم کا حصہ کیسے بنتی ہے اور پھر اس سے انسان کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اب رہا مسئلہ کہ انسان جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے اسی میں دفن کیا جائے گا اس کی وضاحت درج ذیل ہے:
علامہ سمہوردی فرماتے ہیں:
اذ کل نفس انما خلقت من تربته التی يدفن فيها بعد الموت.
'چونکہ ہر نفس کو اس مٹی سے تخلیق کیا جاتا ہے جس میں بعد از وفات اسے دفن کیا جاتا ہے'۔
نور الدين علی بن احمد مصری سمهودی، وفاء الوفا باخبار دار المصطفی. 1: 32، مصر: مطبعة السعاده
احادیث مبارکہ میں بھی اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ درج ذیل ہے:
عن أبی سعيد الخدری قال مر النبی صلی الله عليه وآله وسلم بجنازة عند قبر فقال قبر من هذا فقالوا فلان الحبشی يا رسول الله فقال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم لا اله الا الله سيق من أرضه وسمائه الی تربته التی منها خلق.
'حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جنازہ کے بعد ایک قبر کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا: یہ کس کی قبر ہے؟ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! فلاں حبشی کی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا الہ الا اللہ پڑھ کر فرمایا: اسے اس کی زمین اور آسمان سے اس مٹی میں لایا گیا، جس سے اس کی تخلیق کی گئی تھی'۔
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 521، رقم : 1356، دارالکتب العلمية، بيروت
البيهقی، شعب الايمان، 7 : 173، رقم 9891، دار الکتب العلمية بيروت
امام عبد الرزاق اپنی مصنف میں نقل کرتے ہیں:
عن عکرمة مولی ابن عباس انه قال يدفن کل انسان فی التربة التی خلق منها.
'حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہر انسان کو اس مٹی میں دفن کیا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا ہے'۔
عبد الرزاق، المصنف، 3 : 515، رقم : 6531، المکتب الاسلامی بيروت
المختصر انسان مٹی سے حاصل شدہ بہت سے اجزا ملنے سے مرحلہ وار سفر طے کرنے کے بعد حاصل ہونے والے جوہر سے پیدا ہوتا ہے جس کی اصل مٹی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔