Fatwa Online

کیا غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے؟

سوال نمبر:2135

السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے یا ناجائز؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد آمین

  • مقام: لودھراں، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 06 مئی 2013ء

موضوع:نماز جنازہ

جواب:

نماز جنازہ دراصل مرنے والے مسلمان کے لیے دعائے مغفرت ہے اگر وہ بالغ ہے اور اگر نابالغ بچہ بچی ہے تو اس معصوم کی شفاعت حاصل کرنے کی دعا کی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں منافقین کی نماز جنازہ سے منع کیا گیا ہے۔

وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِه.

(التَّوْبَة ، 9 : 84)

اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں (کیونکہ آپ کا کسی جگہ قدم رکھنا بھی رحمت و برکت کا باعث ہوتا ہے اور یہ آپ کی رحمت و برکت کے حق دار نہیں ہیں)۔

قبر پر نماز جنازہ

ایک سوال یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ شخص جو جنازہ میں شرکت نہ کر سکے اور میت کو دفنا دیا جائے، کیا وہ شخص اب قبر پر نماز جنازہ ادا کر سکتا ہے؟

اس بارے میں ابن رشد الاندلسی کی ایک روایت ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ ان کی روایت کے مطابق بعض آئمہ نے اس نماز جنازہ کو جائز قرار دیا ہے اور بعض اس کے جواز کو درست نہیں سمجھتے جو لوگ جائز تصور کرتے ہیں ان کے مطابق فوت شدہ آدمی کی مدت وفات کو بھی دیکھا جائے گا اور یہ مدت وفات مختلف آئمہ کے ہاں مختلف ہے۔ روایت کچھ یوں ہے۔

اختلفوا فی الصلاة علی القبر لمن فاتته الصلة علی الجنازة فقال مالک لا يصلی علی القبر وقال ابو حنيفة لا يصلی علی القبر الا الولی فقط اذا فاتته الصلوة علی الجنازة وکان الذی صلی عليه غير وليها وقال الشافعی واحمد واؤد وجماعة يصلی علی القبر من فاتته الصلة علی الجنازة واتفق القائلون باجازة الصلة علی القبر ان من شرطه ذالک حدوث الدفن وهولاء اختلفوا فی هذه المدة واکثرها شهر.

(بداية المجتهد لامام، ابن رشد الاندلسی 1 : 173)

جس سے نماز جنازہ رہ گئی کیا وہ قبر پر نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے؟ اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام مالک نے کہا قبر پر نماز جنازہ ادا نہیں کی جا سکتی اور امام ابو حنیفہ نے فرمایا قبر پر نماز صرف میت کا ولی پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ اس نے پہلے ادا نہیں کی اور بشرطیکہ پہلے نماز جنازہ غیر ولی نے پڑھائی تھی اور امام شافعی، امام احمد، داؤد اور جماعت علماء نے کہا جن کی نماز جنازہ فوت ہو گئی وہ قبر پر ادا کر سکتا ہے۔ قبر پر نماز جنازہ کو جنہوں نے جائز قرار دیا ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ میت تازہ تازہ دفن ہوئی ہو۔ ان حضرات نے اس مدت میں اختلاف کیا ہے زیادہ سے زیادہ مدت ایک مہینہ ہے۔

علامہ عبد الرحمن الجزیری فرماتے ہیں:

الحنابلة قالوا تجوز الصلة علی الفائت ان کان بعد موته بشهر فاقل الشافعية قالوا تصح الصلة علی الفائت عن البلد من غير کراهة. المالکية قالوا الواجب حضور الميت واما وضعه امام المصلی بحيث يکون عند منکبی المرة ووسط الرجل فمندوب

(الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 / 522)

حنابلہ نے کہا مرنے کے ایک مہینے یا اس سے کم مدت میں نماز غائبانہ جائز ہے۔ شافعیہ نے کہا جب میت شہر سے غائب ہو اس پر نماز جنازہ بغیر کراہت جائز ہے۔ مالکیہ نے کہا میت کا موجود ہونا لازم ہے۔ رہا اس کا نمازی (امام) کے آگے اس طرح ہونا کہ عورت کا کندھا امام کے سامنے ہو اور میت مرد ہو تو یہ مستحب ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملِ مبارک

ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم نعی للناس النجاشی اليوم الذي مات فيه وخرج بهم الی المصلی فصف بهم وکبر اربع تکبيرات.

(بخاری ومسلم)

حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ جس دن فوت ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو ان کی وفات کی خبر دی اور لوگوں کے ہمراہ جنازہ گاہ تک پہنچے۔ ان کی صف بندی فرمائی اور چار تکبیر نماز جنازہ ادا فرمائی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے۔ پوچھا یہ میت کب دفن کی گئی؟ لوگوں نے عرض کی گذشتہ رات۔ فرمایا :

افلا اذنتمونی قالوا دفناه فی ظلمة الليل فکرهنا ان نوقظک فقام فصففنا خلفه فصلی عليه.

(بخاری ومسلم)

تم نے مجھے کیوں نہ بتایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہم نے اندھیری رات میں اسے دفن کیا اور آپ کو رات گئے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ آپ کھڑے ہوئے۔ ہم نے پیچھے صف بنائی تو آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

ایک حبشی بی بی مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھیں۔ یا ایک نوجوان تھا۔ (راوی کو شک ہے)۔ وہ نظر نہ آئیں تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے کہا وہ مر گئی (یا مر گیا)۔ فرمایا۔ تم نے مجھے کیوں نہ بتایا؟ فرمایا۔ لوگوں نے معمولی سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ فرمایا اس کی قبر پر مجھے لے چلو۔ لوگ آپ کی اس قبر پر لے گئے۔ پس آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔ پھر فرمایا:

ان هذه القبور مملوة ظلمة علی اهلها وان الله ينورها لهم بصلوتی عليهم.

(بخاری ومسلم)

یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیرے سے بھری ہوتی ہیں اور میں نے ان پر نماز جنازہ ادا کر دی تو اللہ پاک اس کے طفیل ان کو روشن فرما دے گا۔

نماز جنازہ کی اہمیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

ما من رجل مسلم يموت فيقوم علی جنازته اربعون رجلا لا يشرکون بالله شيئا الا شفعهم الله فيه.

(مسلم)

جو بھی مسلمان مر جائے اور اس کے جنازہ میں چالیس افراد شامل ہوں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اللہ پاک اس کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرماتا ہے۔

صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس تعداد کو مزید کم کرتے ہوئے فرمایا :

(چار مسلمان بھی اس میت میں بھلائی (مغفرت) کی گواہی دیں اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ ہم نے کہا تین ہوں تو؟ فرمایا تین ہوں تو بھی۔ ہم نے عرض کی۔ دو ہوں تو؟ فرمایا دو ہوں تو بھی۔ پھر ہم نے ایک کا سوال نہ کیا۔

(بخاری)

غائبانہ نماز جنازہ

حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ پڑھی گئی۔ کچھ لوگ بعد میں حاضر ہوئے،

امر علی رضی الله عنه قرظة الانصاری ان يؤمهم ويصلی عليه بعد ما دفن.

(مصنف عبد الرزاق، 3 / 519)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قرظۃ الانصاری کو حکم دیا کہ ان لوگوں کی امامت کروائیں اور نماز جنازہ ادا کریں۔ یہ سب ان کے دفن ہونے کے بعد ہوا۔

فقہائے احناف کا مسلک اور دلائل

فقہائے احناف کا مسلک آپ نے پڑھ لیا کہ ان کے نزدیک قبر پر نماز جنازہ جائز نہیں۔ ہاں اگر ولی نے نہیں پڑھی اور غیر ولی نے نماز پڑھائی تو ولی قبر پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھے گا اور اگر ولی پہلی نماز جنازہ میں موجود تھا تو بعد میں نماز جنازہ جائز نہیں۔ یونہی غائبانہ نماز جنازہ بھی احناف کے نزدیک جائز نہیں۔ جو حضرات غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے ہیں ان کے دلائل آپ نے پڑھ لیے۔ یعنی وہ متعدد احادیث جو ہم نے ذکر کر دی ہیں۔ اب مناسب یہ ہے کہ ائمہ احناف کے دلائل بھی ذکر کر دیے جائیں تاکہ ہمارے لیے کسی نتیجہ پر پہنچنا آسان ہو جائے۔ ہدایہ میں ہے:

وان صلی الولی لم يجز لاحد ان يصلی بعده لان الفرض يتادی بالاولی والنفل بها غير مشروع ولهذا راينا الناس ترکوا عن اخرهم الصلة علی قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم وهو اليوم کما وضع وان دفن الميت ولم يصل عليه صلی علی قبره لان النبی صلی الله عليه وآله وسلم صلی علی قبر امرة من الانصار.

(هدايه)

اگر ولی نے نماز جنازہ ادا کر لی تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ اس کے بعد نماز جنازہ پڑھے۔ کیونکہ فرض پہلی بار ادا ہو چکا ہے اور نفل جنازہ جائز نہیں۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ تمام لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اقدس پر نماز جنازہ چھوڑ دی حالانکہ آپ آج بھی ویسے ہی زندہ سالم ہیں جیسے دفن کے وقت۔ اور اگر میت بغیر نماز جنازہ کے دفن کیا گیا ہے تو اس کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انصاری بی بی کی قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔

" جب فرض ادا ہو گیا، نفلی جنازہ جائز نہیں" امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے۔

يستلزم منع الولی ايضا من اعادة اذا صلی من الولی اولی منه اذا الفرض وهو قضاء حق الميت تادي به

جب میت پر قریب تر ولی نے نماز جنازہ پڑھ لی تو لازم آئے گا کہ اب ولی کو بھی دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے سے منع کر دیا جائے۔ کیونکہ فرض یعنی میت کا حق پورا کرنا تو ہو چکا۔

پس نفلی نماز کی ممانعت سے اس شخص کو مستثنی کرنا لازم ہے جس کو دوبارہ جنازہ پڑھنے کا حق ہے اور یہ کہنا چاہے کہ دوبارہ جنازہ وہ نہیں پڑھ سکتا جس کو اس کا حق نہیں۔

اما من له الحق فتبقی الشرعية ليستوفی حقه.

(فتح القدير، 2 / 84)

مگر جس کو یہ حق حاصل ہے تو اس کے لیے دوبارہ جنازہ پڑھنے کا جواز باقی ہے تاکہ وہ اپنا حق حاصل کر لے۔

لہذا صاحب ہدایہ کا یہ استدلال ختم ہو گیا کہ ایک بار کی ادائیگی سے فرض ادا ہو گیا اور نفلی جنازہ جائز نہیں۔

غائبانہ نماز جنازہ کے مانعین کی بڑی دلیل

ثم استدل علی عدم شرعية التنفل بترک الناس عن اخرهم الصلة علی قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم ولو کان مشروعا لما اعرض الخلق کلهم من العلماء والصالحين والراغبين فی التقرب اليه صلی الله عليه وآله وسلم بانواع الطرق عنه فهذا دليل ظاهر فوجب اعتباره.

(فتح القدير، 2 / 84)

پھر مصنف ہدایہ نے نفلی نماز جنازہ کے ناجائز ہونے کی یہ دلیل پیش کی کہ لوگوں نے بالاتفاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر نماز جنازہ چھوڑ دی ہے۔ اگر جائز ہوتی تو تمام مخلوق جن میں علماء، صلحا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مختلف ذرائع سے قرب حاصل کرنے کے شوقین شامل ہیں، اس سے روگردانی نہ کرتے۔ پس یہ اس پر واضح دلیل ہے اس کا اعتبار لازم ہے۔

علامہ شامی کا ارشاد

علامہ حصکفی الدرالمختار میں فرماتے ہیں۔

وصلة النبی صلی الله عليه وآله وسلم علی النجاشی لغوية او خصوصية.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت نجاشی پر نماز جنازہ، یا اصطلاحی نماز جنازہ نہ تھی بلکہ لغوی صلاۃ (یعنی دعائے مغفرت) تھی۔ یا آپ کی خصوصیت۔

علامہ شامی اس کی شرح میں لکھتےہیں:

المراد بها مجرد الدعاء وهو بعيد او خصوصية لانه رفع سريره حتی رآه عليه الصلاة والسلام بحضرته.

(شامی، 2 / 209، البحر الرائق، 2 / 179 / بدائع الصنائع، 3111)

یا تو صلاۃ سے مراد محض دعائے مغفرت ہے مگر یہ بات حقیقت سے دور ہے یا یہ آپ کی خصوصیت ہے کیونکہ ان کی میت کو اٹھا کر سامنے رکھ دیا گیا تھا یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے سامنے دیکھا۔

امام اجل شمس الائمۃ ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الصلاة علی الجنازة فرض علی الکفاية تسقط باداء الواحد اذا کان هو الولی وليس للقوم ان يعيدوا بعد ذلک.

(المبسوط للسرخسی، 2 / 126)

نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر ایک ولی بھی ادا کر دے تو فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ باقی لوگوں کو دوبارہ ادا کرنے کی اجازت نہیں۔

امام محمد بن حسن شیبانی سے پوچھا گیا:

ارايت اماما صلی علی جنازة وفرع وسلم وسلم القوم ثم جاء آخرون بعد فراغ الامام من الصلاة ايصلون عليها جماعة او وحدانا قال لا يصلون عليها جماعة ولا وحدانا.

(المبسوط امام محمد بن حسن شيبانی، 1 / 428)

آپ کے خیال میں ایک امام نے نماز جنازہ ادا کر لی اور فارغ ہو گیا اور سلام پھیر لیا لوگوں نے بھی سلام پھیر لیا۔ امام کے فارغ ہونے کے بعد اور لوگ آ گئے۔ کیا وہ جماعت کے ساتھ یا اکیلے نماز جنازہ ادا کریں گے؟ فرمایا نہیں۔ نہ جماعت کے ساتھ نہ اکیلے۔

ان تمام حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ احناف کے نزدیک نہ تو میت پر نماز جنازہ غائبانہ جائز ہے اور نہ دوبارہ ادا کرنا جبکہ پہلی بار ولی نے ادا کر لی۔ البتہ شوافع، حنابلہ اور داؤد نے قبر پر نماز جنازہ کو جائز قرار دیا ہے۔ مالکیہ اس مسئلہ میں احناف سے متفق ہیں۔

بندہ ناچیز کی رائے

ہم حنفی المذہب ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے۔ مگر چند مسائل پر ہماری دیانتدارانہ رائے ہے کہ ان پر غور وفکر اور نظرثانی کی ضرورت ہے۔ جن میں سے ایک مسئلہ غائبانہ نماز جنازہ کا بھی ہے۔ قرآن وسنت اور فقہائے اسلام کے ہاں یہ طے ہے کہ واجب وحرام کے لیے کوئی دلیل شرعی درکار ہے مگر کسی بات کے جائز ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ شریعت میں اس کی ممانعت نہیں، نہ ہی ممنوعات شرعیہ کی اس میں علت ہے اور جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول وفعل سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ میت سامنے رکھے بغیر اور میت کی عدم موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دو نہیں متعدد بار قبر پر یا قبر کے بغیر نماز جنازہ ادا فرمائی ہے اور کسی ایک مرتبہ بھی اس کی صراحتا یا کنایتا ممانعت نہیں فرمائی۔ تو امت کے لیے بالکل جائز ہے کہ وہ کسی میت مسلم پر چاہیں تو نماز غائبانہ ادا کر سکتے ہیں۔ دلائل شرعیہ حاضر ہیں۔

دلیل نمبر 1

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں عرض کیا کون کون سے؟ فرمایا:

اذا لقيته فسلم عليه واذا دعاک فاجبه اذا استنصحک فانصح له واذا عطس فحمد الله فشمته واذا مرض معده واذا مات فاتبعه.

(مسلم)

جب اس سے ملے تو اسے سلام کہہ۔ جب تجھے دعوت دے تو قبول کر۔ جب تجھ سے خیر خواہی چاہے تو اس کی خیر خواہی کر۔ جب چھینک مارے اور اللہ کی حمد کرے (الحمد اللہ کہے) تو اسے یرحمک اللہ (اللہ تجھ پر رحم فرمائے) سے جواب دے۔ جب بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کر اور جب مر جائے تو اس پر نماز جنازہ ادا کر۔

اس حدیث پاک میں نماز جنازہ کا حکم عام ہے خواہ حاضر ہو خواہ غائب۔

دلیل نمبر 2

یہ کہنا کہ نجاشی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلاۃ لغوی تھی یعنی دعائے مغفرت۔ تو عرض یہ ہے کہ نماز جنازہ میں یہی کچھ تو ہوتا ہے، پس جواز نکل آیا۔ رہی بات خصوصیت کی تو اس کی کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی گئی۔ پس عمل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جواز ثابت ہے جبکہ تاویلات دور از کار ہیں، ان کی ضرورت نہیں۔ نہ حقیقت متروک ہے نہ متعذر، پھر مجاز کی طرف کیوں جائیں؟

نماز غائبانہ کے ناجائز ہونے کی سب سے بڑی دلیل پر غور

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا غائبانہ نماز جنازہ کے عدم جواز پر سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر ادا نہیں کی گئی۔ پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ کس طرح ادا کی گئی ہے؟ کوئی امام نہ تھا۔ کوئی تکبیرات نہ تھیں۔ حجرہ مبارکہ میں جسم انور تشریف فرما تھا۔ چھوٹی سی جگہ تھی۔ لوگ ٹولیوں کی شکل میں دروازے سے اندر آتے، زیارت کرتے اور درود وسلام پڑھتے، آنسوؤں کا نذرانہ گزارتے، عقیدت کا اظہار کرتے اور باہر نکل جاتے۔

ثم دخل الناس علی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يصلون عليه ارسالا. دخل الرجال حتی اذا فرغوا ادخل النساء حتی اذا فرغ النساء ادخل الصبيان ولم يؤم الناس علی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم احد.

(سيرت ابن هشام، 4 / 314، طبری، 2 / 452، ابن خلدون، 2 / 63،)

پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گروہ در گروہ درود (وسلام) پڑھتے  تھے۔ پہلے مرد داخل ہوتے رہے یہاں تک کہ جب وہ ختم ہو گئے عورتیں داخل ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ جب عورتیں فارغ ہو گئیں، بچے داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ میں کسی نے لوگوں کی امامت نہیں کروائی۔

سیرت نبویہ کے شارح امام ابو القاسم عبد الرحمن بن السہیلی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

هذا خصوص به صلی الله عليه وآله وسلم ولا يکون هذا العمل الا عن توقيف وکذلک روي انه اوصی بذلک ذکره الطبری منسدا ووجه الفقه فيه ان الله تبارک وتعالی افترض الصلاة عليه بقوله '' صلوا عليه وسلموا تسليما'' وحکم هذه الصلاة التی تضمنتها الآية الا يکون بامام والصلاة عليه عند فوته داخلة فی لفظ الآية وهی منتاولة لها وللصلاة عليه علی کل حال.

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت ہے اور یہ کام صرف وحی سننے پر موقوف ہے۔ یونہی روایت ہے کہ اس کی رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود وصیت فرمائی تھی۔ اسے طبری نے سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ مقام غور اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام اپنے اس فرمان سے فرض کیا ہے ''صلوا علیہ وسلموا تسلیما'' درود بھیجو آپ پر اور خوب خوب سلام۔ اس آیت میں '' صلوۃ وسلام'' کا جو حکم ہے اس کا حکم شرعی یہ ہے کہ امام کے ساتھ نہ ہو۔ اور حضور کی وفات کے وقت آپ پر جو صلوۃ وسلام پڑھا گیا وہ بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے اور آیت اس کو شامل ہے اور باقی درود وسلام کو بھی جو کبھی کسی حال میں پڑھا جائے۔

بزار نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ''جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام اہل بیت کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر جمع فرمایا تو سب نے پوچھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نماز کون پڑھے گا؟ فرمایا کیا اللہ پاک نے تمہیں بخش نہیں دیا اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں اچھی جزا نہیں دی؟ اس پر ہم رو پڑے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی رو پڑے۔ فرمایا جب مجھے غسل دے کر کفن پہنا دو تو مجھے میرے اسی گھر چارپائی پر رکھ دینا میری قبر کے کنارے۔ پھر کچھ وقت کے لیے نکل جانا۔ سب سے پہلے مجھ پر میرے ہمنشین اور دوست جبرائیل علیہ السلام صلوۃ پڑھیں گے، پھر میکائیل علیہ السلام، پھر اسرافیل علیہ السلام، پھر ملک الموت اپنی فوج کے ہمراہ، پھر تمام فرشتے، پھر تم مجھ پر گروہ در گروہ آ کر درود وسلام بھیجنا۔ شور وغل اور نالہ وشیون سے مجھے ستانا نہیں۔ سب سے پہلے مجھ پر میرے گھر کے مرد، پھر ان کی عورتیں، پھر ان کے بعد تم، میری طرف سے تم کو بھی سلام اور میرے جو صحابہ موجود نہیں ان کو بھی میری طرف سے سلام کہہ دینا اور جو میرے دین پر چلنے والے تمہارے پیروکار ہوں گے ان کو بھی میرا سلام کہہ دینا۔ میں تمہیں گواہ بنا کر آج سے قیامت تک جو بھی میرے دین کے پیروکار ہوں گے سب کو سلام کرتا ہوں۔ میں (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو قبر انور میں کون اتارے؟ فرمایا۔

اهلی مع ملائکة کثير يرونکم من حيث لا ترونهم

(الروض الانف، 2 / 377)

میرے اپنے لوگ بہت سے فرشتوں کے ہمراہ وہ تم کو دیکھتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھتے۔

ابن کثیر یہ روایت ذکر کرتے ہیں۔

دخل ابوبکر وعمر رضی الله عنهما ومعهما نفر من المهاجرين والانصار بقدر ما يسع البيت فقالا السلام عليک ايها النبی ورحمة الله وبرکاته وسلم المهاجرون والانصار کما سلم ابو بکر وعمر ثم صفوا صفوفا لا يؤمهم احد هذا الضيع وهو صلاتهم عليه فرادی لم يؤمهم احد عليه امر مجمع عليه لا خلاف فيه.

(البدايه والنهايه، 5 / 232)

ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما دوسرے مہاجرین وانصار کے ہمراہ حجرہ مبارک میں جتنی گنجائش تھی داخل ہوئے۔ دونوں نے سلام عرض کیا۔ '' اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں۔۔۔۔ تمام مہاجرین وانصار نے اسی طرح سلام عرض کیا جیسے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما نے عرض کیا۔ پھر لوگوں نے صفیں بنا لیں۔ کوئی ان کا امام نہیں تھا۔ یہ عمل کے سب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر الگ الگ درود وسلام بھیجا کسی نے لوگوں کی امامت نہیں کی۔ بلا اختلاف اجماعی مسئلہ ہے۔

خلاصہ مبحث

خلاصہ کلام یہ کہ میت پر غائبانہ نماز ادا کرنا یا دوبارہ نماز جنازہ ادا کرنا اگر ضرورت ہو تو بالکل جائز ہے، اس کی مخالفت کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ جن ائمہ نے اسے ناجائز فرمایا اس پر کوئی واضح دلیل شرعی قائم نہیں فرمائی۔ حالانکہ قرآن وحدیث سے مرنے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کی بار بار تاکید ملتی ہے اور نماز جنازہ دعائے مغفرت ہی ہے۔ لہذا اس سے منع کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، میت حاضر ہو یا غائب۔

نجاشی رحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمائی تو ہمارے ائمہ احناف نے اپنی تاویلات سے اسے بھی خصوصیات نبوی میں شامل فرما لیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض حضرات کی قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائی۔ ظاہر ہے کہ میت سامنے رکھی ہوئی نہ تھی۔ پھر غائبانہ نماز جنازہ کے خلاف بڑی دلیل یہ دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت کے والہانہ عشق اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کے صحیح سالم ہونے اور آپ کی حیات مقدسہ کے باوجود امت نے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ چھوڑ دی۔ اگر جائز ہوتی تو اس سعادت سے امت کیوں محروم ہوتی؟ پس اس زبردست دلیل کے ہوتے ہوئے غائبانہ نماز جنازہ کیونکر ادا کی جا سکتی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ اس طرح نہیں پڑھی گئی جس طرح عام لوگوں کی۔ نہ وہاں صف بندی ہوئی، نہ امام، بلکہ جتنی گنجائش تھی لوگ درود وسلام اور دوسرے کلمات طیبات پڑھتے آتے اور نکلتے جاتے۔ بے ادبی معاف! آج تک امت مسلمہ اسی طرح نہیں کر رہی؟ لوگ روضہ اقدس پر حاضر ہوتے ہیں، ذوق وشوق اور والہانہ پن کا اظہار کرتے ہیں، آنسو بہاتے، وصل وفصل کی لذتوں سے سرشار درود وسلام دست بستہ عرض کرتے اور مرادوں سے جھولیاں بھرتے، نصیب جگاتے، بگڑی بناتے، سنہری جالیوں پر نظریں جماتے، گزرتے جاتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب بھی روز اول کی طرح زندہ، تروتازہ، امت کا شوق دیکھتے اور فضل وکرم سے نواز رہے ہیں۔ اب یہ فرمانا کہ نماز جنازہ غائبانہ یا قبر پر پڑھنا جائز ہوتی تو امت کی سرکار سے عقیدت، محبت، شوق وادب کے پیش نظر کیسے ممکن تھا کہ امت اسے ترک کر دیتی اور سب کا روزہ انور پر جنازہ نہ پڑھنا سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس امر کی نماز جنازہ غائبانہ یا قبر پر جائز نہیں۔ اب یہ بڑی دلیل ترک نماز جنازہ کی نہ رہی بلکہ یہی حقیقت مستمرہ اس کے جواز کی سب سے بڑی دلیل بن گئی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ جس طرح سے روز اول سے شروع ہوئی اس میں آج تک ایک لمحہ کا انقطاع نہ ہوا، نہ ہو گا۔ ملائکہ، جنات اور انسان تمام اہل ایمان روضہ انور پر حاضری دیتے ہیں اور آپ پر نماز جنازہ یعنی درود وسلام پڑھتے ہیں۔ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، کچھ لوگوں کے پڑھنے سے دوسرے مسلمان سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ دوبارہ پڑھنا فرض نہیں، نہ پڑھنے والے گنہگار نہیں۔ مگر پڑھنا چاہیں تو قرآن وسنت کی رو سے بالکل جائز ہے۔ اس کے ناجائز ہونے کی کوئی شرعی دلیل کسی کے پاس نہیں۔ غور کریں ہم عام مسلمانوں کی نماز جنازہ میں جو کہ خود ایک دعا ہی تو ہے ان کلمات سے دعا مانگتے ہیں۔

اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وکبيرنا وذکرنا وانثانا. اللهم من احييته منا فاحيه علی الاسلام ومن توفيته من فتوفه علي الايمان.

(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجه، نسائی احمد)

الہی ہمارے زندہ اور مرنے والے کو بخش دے اور جو حاضر ہے اس کو اور جو غائب ہے اس کو بھی، ہمارے چھوٹے اور بڑے کو، ہمارے مرد اور عورت کو بھی بخش دے۔ اے اللہ ہم میں سے جس کو بھی زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھیو اور ہم میں سے جسے وفات دے اسے ایمان پر وفات دیجئیو۔

ایک میت سامنے ہے۔ مگر شریعت نے ہمیں سبق دیا کہ اللہ کی رحمت ومغفرت کو محدود نہ سمجھو۔ یہ دعا صرف ایک کے لیے نہیں ہر مرد، ہر عورت، حاضرین، غائبین، ہر چھوٹا اور بڑا زندہ اور مردہ اس میں شامل ہیں۔ ان صاف صریح نصوص کے مقابلہ میں بلا دلیل یہ کہنا کہ نماز جنازہ غائبانہ جائز ہی نہیں ہماری سمجھ اور فہم سے باہر ہے۔

آخری گزارش

ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ قرآن واحادیث سے میت سامنے ہو یا غائب، قریب ہو یا دور اس کے لیے نماز جنازہ اور دعائے مغفرت بالکل جائز ہے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ہزاروں مسائل اصولا و فروعا بیان فرمائے۔ آپ کی ثقاہت، حزم واحتیاط، تقوی وطہارت، علم وفضل، جہد واجتہاد اور عظمت وفضیلت مسلم ہے، تاہم وہ نبی نہ تھے امتی تھے۔ دلائل شرعیہ کی روشنی میں اگر ان سے کسی جزوی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو نہ یہ ان کی عظمت وشان کے خلاف ہے اور نہ اس میں ان کی بے ادبی اور بے حرمتی ہے۔ خود ان کے سامنے ان کے شاگرد قاضی ابو یوسف، امام محمد وزفر اور حسن بن زیاد وغیرہ سینکڑوں مسائل میں ان سے اختلاف کرتے رہے۔ نہ استاد نے ان کو بے ادب کہہ کر اپنی شاگردی سے عاق کیا اور نہ گمراہ کہا۔ نہ ادب وخلوص میں فرق پڑا اور نہ ان شاگردوں کے اختلاف سے ان کی حنفیت میں فرق پڑا۔ پھر کوئی دوسرا شخص اگر اسی طرح کا جزوی اختلاف کرے تو اسے کس دلیل سے مطعون کیا جا سکتا ہے؟

قرآن واحادیث اور فقہ حنفی کے قواعد کی روشنی میں

فرض و واجب یا حرام و گناہ کے لیے دلیل شرعی درکار ہے۔ کسی کے یونہی کہہ دینے سے کوئی چیز جائز وناجائز یا واجب نہیں ہو جاتی۔

کسی عمل کے نہ کرنے کی وجہ سے بھی وہ عمل ناجائز نہیں ہو جاتا۔

نماز غائبانہ کے خلاف کوئی دلیل شرعی سرے سے موجود ہی نہیں لہذا پڑھنے والوں پر فتوے لگانا درست نہیں۔ نہ نماز غائبانہ پڑھنا ضروری ہے اور نہ ناجائز۔ کوئی پڑھ لے تو بھی دعائے مغفرت ہی ہے اور نصوص شرعیہ کی رو سے بالکل جائز اور نہ پڑھے تو بھی کوئی طعن نہیں کر سکتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ اسی طرح نہ پڑھی گئی جس طرح امتیوں کی پڑھی جاتی ہے بلکہ وہاں صرف درود وسلام نظر عقیدت کے کلمات طیبات تھے اور یہ سلسلہ بغیر کسی وقفہ کے آج تک اور انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ لہذا جن بزرگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ کو مثال بنا کر پیش کیا اور نماز غائبانہ کا انکار فرمایا ہے، ان کی دلیل میں کوئی وزن نہیں کیونکہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہر آنے والی گھڑی میں پہلے سے زیادہ درود وسلام پیش ہو رہا ہے۔ قبر انور کے پاس بھی اور زمین وآسمان، عرش وفرش ہر طرف سے بھی اور زمان ومکان و اطراف کے ماوری یعنی اللہ تعالی کی طرف سے بھی۔ گویا مکان ولامکان، خلق وخالق ہر ایک اپنی اپنی شان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمیشہ دائمی، استمراری درود وسلام بھیج رہا ہے۔

اور بقول علامہ ابن کثیر دمشقی خود امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر چھ بار نماز جنازہ ادا کی گئی۔

وصلی عليه ببغداد ست مرات لکثرة الزحام وقبره هناک رحمه الله.

(البدايه والنهايه : 108)

زیادہ رش کی وجہ سے بغداد میں آپ کی نماز جنازہ چھ بار ادا کی گئی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 03 December, 2024 10:23:14 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2135/