جواب:
سابقہ انبیاء کی رسالت مخصوص قوموں، علاقوں کے لئے اور ان کے حالات کے تقاضوں کے مطابق تھی جبکہ نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق آدم سے قیامت تک کی ساری مخلوق کے لئے ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.
اعرف، 7 : 158
’’آپ فرما دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’مجھ سے پہلے ہر نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا گیا لیکن میں تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
صحيح بخاري، 1 : 128، رقم : 328
اس امر کی مزید وضاحت اس حدیث مبارکہ سے ہو جاتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تخلیق آدم سے پہلے ہی خاتم النبیین کے وصف سے متصف تھا۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّی عِنْدَ اللهِ فِيْ أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فيْ طِيْنَتِه.
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 128
2. حاکم المستدرک، 2 : 656، رقم : 4175
’’میں اللہ تعالیٰ کے ہاں (اس وقت بھی) ام الکتاب میں خاتم النبیین تھا جب آدم ابھی خمیر سے پہلے مٹی میں تھے۔‘‘
پس واضح ہو گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف سب سے پہلے منصب نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت خاتم النبیین بنایا گیا جب حضرت آدم علیہ السلام کا پیکر خاکی بھی تیار نہ ہوا تھا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔