جواب:
اسلام کا لفظ س، ل، م، سَلَمَ سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معانی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی میں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے :
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ منْ لِّسَانِه وَيَدِه.
’’بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده،
1 : 13، رقم : 10
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب : تفاضل الاسلام و ای اموره أفصل، 1 : 65، رقم
: 40
اسی مادہ کے باب اِفعال سے لفظ ’اسلام‘ بنا ہے۔ لغت کی رو سے لفظ اسلام چار معانی پر دلالت کرتا ہے۔
1۔ اسلام کا لغوی معنی خود امن و سکون پانا، دوسرے افراد کو امن و سلامتی دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَهْدِيْ بِهِ اﷲُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلٰمِ.
’’اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے۔‘‘
المائدة، 5 : 16
2۔ ’اسلام‘ کا دوسرا مفہوم ماننا، تسلیم کرنا، جھکنا اور خود سپردگی و اطاعت اختیار کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
اِذْ قَالَ لَه رَبُّه اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo
’’اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا : (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے : میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیاo‘‘
البقرة، 2 : 131
3۔ ’اسلام‘ میں تیسرا مفہوم صلح و آشتی کا پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا :
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
البقرة، 2 : 208
4۔ اسی طرح ایک بلند و بالا درخت کو بھی عربی لغت میں السّلم کہا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا معانی کے لحاظ سے لغوی طور پر اسلام سے مراد امن پانا، سر تسلیم خم کرنا، صلح و آشتی اور بلندی کے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔