Fatwa Online

کیا عذاب قبر حق ہے؟

سوال نمبر:1934

کیا عذاب قبر حق ہے؟ کیا یہ ہر کسی کو دیا جاتا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: کوثر صدیقی

  • مقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 02 اگست 2012ء

موضوع:حیات برزخی

جواب:

عذاب قبر برحق ہے، اس کا مطلب انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے اور وہ کافر و مرتد ہے۔ جس کے اعمال برے ہونگے، اس کو اس کے اعمال کے مطابق سزا ملے گی۔ عذاب قبر برحق ہے اور قرآن وحدیث میں عذاب قبر کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

عذاب قبر برحق ہے

عذاب قبر بر حق ہے۔ اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ اﷲ رب العزت کا فرمان ہے :

1. وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَo

(الْأَنْعَام ، 6 : 93)

’’اور اگر آپ (اس وقت کا منظر) دیکھیں جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں گے اور فرشتے (ان کی طرف) اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے اور (ان سے کہتے ہونگے) تم اپنی جانیں جسموں سے نکالو۔ آج تمہیں سزا میں ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔ اس وجہ سے کہ تم اﷲ پر ناحق باتیں کیا کرتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے سرکشی کیا کرتے تھےo‘‘

2. وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَo

الطور، 52 : 47

’’اور بیشک جو لوگ ظلم کر رہے ہیں اُن کے لئے اس عذاب کے علاوہ بھی عذاب ہے، لیکن اُن میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘

حضرت براء رضی اللہ عنہ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں’’عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِکَ‘‘ سے مراد قبر کا عذاب ہے۔

طبري، جامع البيان، 27 : 36

3. سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍo

التوبة، 9 : 101

’’عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ (دنیا ہی میں) عذاب دیں گے پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹا ئے جائیں گےo‘‘

احادیثِ مبارکہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کثرت سے عذابِ قبر کے بر حق ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔

1. عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا.

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، 1 : 463، رقم : 1309

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب عرض معقد الميت من الجنّة أو النّار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ، 4 : 2200، رقم : 2869

  3. نسائي، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر، 4 : 102، رقم : 2059

  4. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 417، رقم : 23586

  5. ابن أبي شيبة، المصنف، 3 : 51، رقم : 12035

’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ سورج غروب ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبرستان میں) ایک آواز سنی تو ارشاد فرمایا : یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے :

2. مَا زِلْنَا نَشُکُّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّی نَزَلَتْ : {اَلْهَاکُمُ التَّکَاثُرُ}.

  1. ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب ومن سورة ألهاکم التّکاثر، 5 : 447، رقم : 3355

  2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 546

  3. بيهقي، إثبات عذاب القبر : 132

’’ہم عذابِ قبر کے بارے میں شک میں مبتلا رہے حتی کہ سورۃ التکاثر نازل ہوئی۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

3. عن أبي هريرة عن النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم في قوله عزوجل : {فَاِنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْکًا} قال : عذاب القبر.

  1. ابن حبان، الصحيح، 7 : 389، رقم : 3119

  2. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 537، رقم : 1405

  3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 170

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ عزوجل کے اس فرمان {فَاِنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْکًا} کے بارے میں فرمایا : اس سے مراد عذابِ قبر ہے۔‘‘

4. عن عبد اﷲ ابن مسعود رضی الله عنه عن النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم قال : إنّ الموتی ليعذّبون في قبورهم حتّی إنّ البهائم لتسمع أصواتهم.

  1. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 200، رقم : 10459

  2. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 56

  3. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 192، رقم : 5385

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مردے (کافر، مشرک، منافق) اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں اور ان (کے چیخنے چلانے) کی آوازیں سارے چوپائے سنتے ہیں۔‘‘

منکرِ نبوت کو قبر نے قبول نہ کیا

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ فَکَانَ يَکْتُبُ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَعَادَ نَصْرَانِيًّا، فَکَانَ يَقُولُ : مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا کَتَبْتُ لَهُ فَأَمَاتَهُ اﷲُ فَدَفَنُوهُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا : هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ، لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ وَأَعْمَقُوا لَهُ فِي الْأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ.

  1. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 : 1325، رقم : 3421

  2. أبو يعلیٰ، المسند، 7 : 22، رقم : 3919

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک عیسائی آدمی تھا جو کہ مسلمان ہو گیا اس نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھ لی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے (وحی کی) کتابت کرنے لگا لیکن بعد میں مرتد ہو گیا اور کہنے لگا : (معاذ اﷲ) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تو کسی بات کا پتہ ہی نہیں ہے۔ جو کچھ میں لکھ کر دیتا ہوں بس وہی کہہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اسے موت دی تو عیسائیوں نے اسے (قبر میں) دفن کر دیا صبح ہوئی تو (لوگوں نے دیکھا کہ) زمین نے اسے باہر نکال پھینکا ہے۔ عیسائیوں نے کہا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ کر آیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس کی قبر کھود کر لاش باہر نکال پھینکی ہے۔ عیسائیوں نے اس کے لئے دوبارہ (نئی جگہ) قبر کھودی اور اسے (پہلے کی نسبت) بہت گہرا بنایا اور (لاش کو دوبارہ دفن کر دیا) جب صبح ہوئی تو (لوگوں نے دیکھا کہ) زمین نے اسے پھر باہر نکال پھینکا ہے۔ عیسائیوں نے پھر الزام لگایا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ کر آیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس کی قبر کھود کر لاش باہر نکال پھینکی ہے۔ عیسائیوں نے (تیسری مرتبہ) اس کے لئے قبر کھودی اور اتنی گہری بنائی جتنی گہری وہ بنا سکتے تھے۔ صبح ہوئی تو (لوگوں نے دیکھا کہ) زمین نے اسے پھر باہر نکال باہر پھینکا ہے۔ تب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ مسلمانوں کا کام نہیں ہے (بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے) چنانچہ عیسائیوں نے اس کی لاش ایسے ہی چھوڑ دی۔‘‘

عذابِ قبر کی شدّت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں کئی مقامات پر عذابِ قبر کی شدّت کا ذکر فرمایا ہے :

1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی قَبْرَيْنِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ کَبِيرٍ ثُمَّ قَالَ : بَلَی أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ يَسْعَی بِالنَّمِيمَةِ وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ قَالَ : ثُمَّ أَخَذَ عُوْدًا رَطْبًا فَکَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَی قَبْرٍ ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا.

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغيبة والبول، 1 : 464، رقم : 1312

  2. ابن حبان، الصحيح، 7 : 398، رقم : 3128

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان دونوں کو (قبروں میں) عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی بناء پر نہیں۔ پھر فرمایا ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے قطروں سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہری شاخ لی اور دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر اس کا ایک ایک حصہ لگا دیا اور پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں ان سے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘

2. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اﷲَ أَنْ يُسْمِعَکُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.

  1. مسلم، الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النّار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 : 2200، رقم : 2868

  2. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر، 4 : 102، رقم : 2058

  3. ابن حبان، الصحيح، 7 : 401، رقم : 3131

  4. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 176، رقم : 12831

  5. أبو يعلی، المسند، 5 : 353، رقم : 2996

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر (مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ) تم (اپنے مردے) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر (کی آوازیں) سنوا دے۔‘‘

3. عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَقَالَ : إِنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِکُمْ .

  1. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، 4 : 105، رقم : 2065

  2. نسائي، السنن الکبریٰ، 1 : 662، رقم : 2192

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عذاب قبر اور فتنہ مسیح دجال سے پناہ مانگا کرتے تھے اور فرماتے : تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔‘‘

4. عَنْ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنهما أَنَّهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اللّٰهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيکَائِيلَ وَرَبَّ إِسْرَافِيلَ أَعُوذُ بِکَ مِنْ حَرِّ النَّارِ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.

  1. نسائي، کتاب الاستعاذة، باب الاستعاذة من حرّ النّار، 8 : 278، رقم : 5519

  2. نسائي، السنن الکبریٰ، 4 : 464، رقم : 7960

  3. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 156، رقم : 3858

  4. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 110

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہما بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا مانگی : اے اللہ! اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں آگ کی گرمی سے اور عذاب قبر سے۔‘‘

5. عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي جِنَازَة فَجَلَسَ عَلَی شَفِيرِ الْقَبْرِ فَبَکَی حَتَّی بَلَّ الثَّرَی ثُمَّ قَالَ : يَا إِخْوَانِي لِمِثْلِ هَذَا فَأَعِدُّوا.

  1. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 : 1403، رقم : 4195

  2. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 120، رقم : 5059

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے، حتی کہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسوؤں سے تر ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائیو! اس (قبر) کے لئے کچھ تیاری کر لو۔‘‘

6. عَنْ هَانِيئٍ مَوْلَی عُثْمَانَ قَالَ : کَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه إِذَا وَقَفَ عَلَی قَبْرٍ يَبْکِي حَتَّی يَبُلَّ لِحْيَتَهُ فَقِيلَ لَهُ: تَذْکُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَلَا تَبْکِي وَتَبْکِي مِنْ هَذَا؟ قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ قَالَ : وَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ.

  1. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب ذکر القبر والبلی، 2 : 1426، رقم : 4267

  2. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 526، رقم : 1373

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 63، رقم : 454

  4. بيهقي، السنن الکبریٰ، 4 : 56، رقم : 6856

  5. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 192، رقم : 5387

’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت ہانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب بھی کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو زار و قطار روتے یہاں تک کہ ان کی داڑھی تر ہو جاتی۔ اُن سے پوچھا گیا : آپ کے پاس جنت و دوزخ کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن آپ اس وقت نہیں روتے جبکہ قبر کے پاس روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ جو اس میں کامیاب ہو گیا اس کے لئے بعد والی منازل اس سے بھی آسان ہو جائیں گے، لیکن جو اس میں ناکام ہو گیا اس کے لئے بعد والی منازل اس سے بھی سخت ہوں گی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے قبر سے زیادہ سختی اور گھبراہٹ والی جگہ کوئی نہیں دیکھی۔‘‘

قبر کے سوالات

قبر میں ہونے والے سوالات کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں رہنمائی فرمائی ہے :

1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ : أَحَدُکُمْ أَتَاهُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْکَرُ وَالْآخَرُ النَّکِيرُ. فَيَقُولَانِ : مَا کُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ : مَا کَانَ يَقُوْلُ هُوَ عَبْدُ اﷲِ وَرَسُوْلُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ : نَمْ، فَيَقُولُ : أَرْجِعُ إِلَی أَهْلِي فَأخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ : نَمْ کَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّی يَبْعَثَهُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ وَإِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ : فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُولُ ذَلِکَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَـلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّی يَبْعَثَهُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ.

  1. ترمذي، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071

  2. ابن حبان، الصحيح، 7 : 386، رقم : 3117

  3. هيثمي، موارد الظمأن، 1 : 197، رقم : 780

  4. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 199، رقم : 5399

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میت دفنائی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کی میت دفنائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں تم اس شخص (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ پس (اگر وہ مومن ہو تو) وہ وہی کہتا ہے جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا یعنی وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ہمیں علم ہے کہ تو دنیا میں یہی کہا کرتا تھا۔ پھر اس کے لئے اس کی قبر چاروں طرف سے ستر، ستر گز تک وسیع کر دی جاتی ہے۔ پھر اس کو اس کے لئے روشن کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے : سو جا۔ وہ کہتا ہے : میں اپنے گھر والوں کی طرف جاتا ہوں تاکہ انہیں اپنے حالات کی خبر دوں۔ وہ دونوں اس سے کہتے ہیں : تو اس پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا جس کو اس کے گھروں میں سے صرف اس کا محبوب شوہر ہی جگاتا ہے۔ (وہ اسی حال میں رہے گا) یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اسی حال میں اس کی قبر سے اٹھاے گا۔ اگر وہ منافق ہو تو وہ (ان کے سوال کے جواب میں) کہتا ہے : میں نہیں جانتا میں نے وہی کہا جو میں نے لوگوں کو کہتے سنا : دونوں فرشتے اسے کہتے ہیں : ہم جانتے ہیں کہ تو یہی کہا کرتا تھا۔ پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سکڑ جا۔ پس زمین اس کے لئے سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔ پس وہ اسی حال میں عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اس کی قبر سے اٹھائے گا۔‘‘

2۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے سوالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

وَيَأتِيهِ مَلَکَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ : مَنْ رَبُّکَ؟ فَيَقُولُ : رَبِّيَ اﷲُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا دِينُکَ؟ فَيَقُولُ : دِينِيَ الإِسْلَامُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيکُمْ؟ قَالَ : فَيَقُولُ : هُوَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَيَقُولَانِ : وَمَا يُدْرِيکَ؟ فَيَقُولُ : قَرَأتُ کِتَابَ اﷲِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ.

 أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 : 239، رقم : 4753

’’اُس (میت) کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اُسے اُٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اُس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اﷲ میرا رب ہے۔ فرشتے اُس سے سوال کرتے ہیں : تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اسلام میرا دین ہے۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : یہ شخص (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو تمہارے درمیان مبعوث ہوئے کون ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے : وہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : تجھے یہ کیسے معلوم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے : میں نے اﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) پڑھی، لہٰذا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی۔‘‘

عن أبي هريرة رضی الله عنه قال : شهدنا جنازة مع نبي اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فلمّا فرغ من دفنها، وانصرف النّاس، قال نبی اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إنّه الآن يسمع خفق نعالکم، أتاه منکر ونکير أعينهما مثل قدور النحاس، وانيابهما مثل صياصی البقر، وأصواتهما مثل الرعد، فيجلسانه فيسألانه ما کان يعبد ومن کان نبيه؟ فإن کان ممن يعبد اﷲ قال : کنت أعبد اﷲ والنبيّ محمد صلی الله عليه وآله وسلم جاء بالبينات فآمنّا واتّبعنا فذلک قول اﷲ : {يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَةِج} فيقال له : علی اليقين حييت وعليه مت وعليه تبعث ثم يفتح له باب إلی الجنّة ويوسع له في حفرته وإن کان من أهل الشّک قال : لا أدري سمعت النّاس يقولون شيئا فقلته فيقال له : علی الشّک حييت وعليه مت وعليه تبعث ثم يفتح له باب إلی النّار ويسلط عليه عقارب وثعابين لو نفخ أحدهم في الدّنيا ما أنبتت شيئا تنهشه وتؤمر الأرض فتضم حتّی تختلف أضلاعه.

  1. طبراني، المعجم الأوسط، 5 : 44، رقم : 4629

  2. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 54

  3. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 198، رقم : 5398

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک جنازے میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم میت کی تدفین سے فارغ ہوئے اور لوگ واپس جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اب یہ (تمہارے واپس پلٹنے پر) تمہارے جوتوں کی آواز سنے گا، اس کے پاس منکر اور نکیر آئے ہیں جن کی آنکھیں تانبے کے دیگچے کے برابر ہیں، دانت گائے کے سینگ کی طرح ہیں اور ان کی آواز بجلی کی طرح گرج دار ہے، وہ دونوں اس کو بٹھائیں گے اور پوچھیں گے : کس کی عبادت کرتے تھے اور تمہارا نبی کون تھا؟ اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں سے ہوا تو وہ کہے گا : میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں لے کر ہمارے پاس آئے۔ پس ہم ایمان لے آئے اور ہم نے ان کی اتباع کی۔ پس اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اسی بارے میں ہے : (اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔) اس سے کہا جائے گا : تو یقین کے ساتھ زندہ رہا اور اسی پر تمہاری موت ہوئی اور اسی پر تم روزِ قیامت اٹھائے جاؤ گے۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اہلِ شک (منافقین) میں سے ہو تو وہ (ان کے سوالوں کے جواب میں کہتا ہے :) میں نہیں جانتا میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا میں نے بھی وہی کہا۔ اس سے کہا جائے گا : تو شک پر زندہ رہا، اسی پر تمہاری موت ہوئی اور اسی پر روزِ قیامت تمہیں اٹھایا جائے گا۔ پھر اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اس پر ایسے بچھو اور سانپ مسلّط کر دئیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین میں پھونک مار دے تو زمین کے تمام نباتات جل کر راکھ ہو جائیں، پھر زمین کو حکم دیا جاتا اور وہ سکڑ جاتی ہے حتی کہ اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔‘‘

عن عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنهما أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ذکر فتاني القبر فقال عمر بن الخطاب : وأترد علينا عقولنا يا رسول اﷲ؟ فقال : نعم کهيئتکم اليوم قال : فبفيه الحجر.

  1. ابن حبان، الصحيح، 7 : 384، رقم : 3115

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 172، رقم : 6603

  3. هيثمي، موارد الظمأن، 1 : 196، رقم : 778

  4. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 47

  5. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 193، رقم : 5391

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے فرشتوں کا ذکر فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہمیں ہماری یہ سمجھ بوجھ لوٹا دی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بالکل! آج جیسی ہی سوجھ بوجھ (قبر میں) دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : فرشتے کے منہ میں پتھر (یعنی میں اس کو خاموش کرا دوں گا)۔‘‘

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:حافظ محمد اشتیاق الازہری

Print Date : 27 November, 2024 08:07:14 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1934/