جواب:
وحی کے نزول کی مختلف صورتیں تھیں۔ جو قرآن وحدیث سے ثابت ہیں لیکن ایسی کسی بات کا ذکر قرآن وحدیث میں نہیں ہے کہ فرشتے بے ہوش ہو جاتے تھے۔ وحی کے نزول کی مختلف صورتیں درج ذیل ہیں۔
وحی کی حقیقت و ماہیت پر علماء، فلاسفہ اور متکلمین اسلام نے اپنی کتب میں خاصی تفصیل سے لکھا ہے جن میں سے امام غزالی کی ’’مقاصد المراصد‘‘ اور ’’معارج القدس‘‘۔ علامہ ابن تیمیہ کی ’’مجموعہ الفتاویٰ‘‘ حافظ ابن قیم کی ’’زاد المعاد‘‘ اور ابن سینا کی ’’الاشارات، ’’الفعل والانفعال‘‘ اور ’’الرسالۃ العرشیۃ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں، اب ہمیں صرف یہ بیان کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نزولِ قرآن کے سارے زمانے میں حسب ذیل مختلف صورتوں میں ہوتی رہی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز رویائے صالحہ سے ہوا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
اول ما بدی به رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم من الوحی الرويا الصالحه فی النوم فکان لا يریٰ رويا إلا جاء ت مثل فلق الصبح.
بخاری، الصحيح، کتاب بدء الوحی، 1: 4، رقم: 2
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، 1: 140، رقم: 160
ابن حبان، الصحيح، کتاب الوحی، 1: 216، رقم: 33
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز سچی خوابوں سے ہوا جو خواب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو دیکھتے اس کی تعبیر صبح کے اجالے کی مانند سامنے آ جاتی۔‘‘
2. نفث فی الروع يا القاء فی القلب(دل میں پھونکنا یا خیال ڈالنا)
وحی کی اس صورت میں فرشتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب و ذہن میں ایک بات ڈال دیتا ہے اس کی مثال وہ حدیث پاک ہے جسے امام حاکم نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!
إن جبرئيل عليه السلام ألقیٰ فی روعی أن احداً منکم لن يخرج من الدنيا حتٰی يستکمل رزقه فاتقوا اﷲ ايها الناس واجملوا فی الطلب فإن إستبطا أحد منکم رزقه فلا يطلبه بمعصية اﷲ فان اﷲ لا ينال فضله بمعصية
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 5، رقم: 2136
منذری، الترغيب والترهيب، 2: 339، رقم: 2629
ابن عبدالبر، التمهيد، 24: 435
’’روح القدس (جبرائیل امین) نے میرے دل میں ایک بات ڈال دی کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مر سکتا جب تک وہ اپنا رزق مکمل نہ کرے اس لئے اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور طلب رزق میں خوبصورت طریقے اختیار کرو ان کے ملنے میں اگر دیر ہو جائے تو اس کو خدا کی نافرمانی سے مت طلب کرو کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اس کی اطاعت سے ہی مل سکتی ہے۔‘‘
وحی کی صورتوں میں سے تیسری صورت یہ تھی کہ گھنٹی کی طرح کی کوئی آواز سنائی دیتی یہ صورتِ وحی بڑی سخت ہوتی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت حارث رضی اللہ عنہ بن ہشام نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپکی طرف وحی کیسی آتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
احيانا ياتينی فی مثل صلصلة الجرس و هو أشده علی
بخاری، الصحيح کتاب بدأ لوحی، 1: 4 رقم: 2
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب عرق النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 4: 1816، رقم: 2333
ابن حبان، الصحيح، کتاب الوحی، 1: 225، رقم: 38
ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب المنافب عن الرسول صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ماجاء کيف کان ينزل الوحی علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم
نسائی، السنن، کتاب الافتتاح، باب جامع ما جاء فی القرآن، 2: 147، رقم: 934
مالک بن انس، مؤطا، 1: 202، رقم: 475
احمد بن حنبل، المسند، 6: 158، رقم: 25291
بيهقی، السنن الکبری، 7: 52، رقم: 13120
ربيع، المسند، باب فی ابتداء الوحی، 1: 23، رقم: 2
هبة اﷲ، اِعتقاد اهل السنة، 4: 759
ابن عبدالبر، التمهيد، 1: 284
ابو الفرج، صفوة الصفوة، 1: 82
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1: 198
ابن حزم، تهذيب الأسماء و الغات، 1: 152
’’کبھی کبھی وحی میرے پاس گھنٹی کی آوازکی مانند آتی اور وہ میری طبیعت پر بڑی گراں ہوتی ہے۔‘‘
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سخت سردی کے موسم میں بھی وحی کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے تھے
(بخاری، الصحيح، کتاب بدأ لوحی، 1: 4، رقم: 2)
اس دوران اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی اونٹنی پر سوار ہوتے تو وہ اونٹنی بھی اس بوجھ کی متحمل نہ ہوتی بلکہ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتی تھی۔‘‘
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ!
أنزل اﷲ علی رسوله صلی الله عليه وآله وسلم و فخذه علی فخذی فثقلت علی حتی خفت ان ترضَّ فخذی
بخاری، الصحيح، کتاب الصلوٰة، باب ما يذکر فی الفخذ، 1: 145، رقم: 363
ترمذی، السنن، ابواب تفسير القرآن، باب من سورة النساء، 5: 126، رقم: 3033
نسائی، السنن، کتاب الجهاد، باب فضل المجاهدين علی القاعدين، 6: 8، رقم: 3099
’’اﷲ تعالی نے اپنے رسول پر وحی نازل کی تو آپکی ران میری ران پر تھی مجھے اتنا بوجھ لگا کہاندیشہ ہوا کہ کہیں میری ران ٹوٹ نہ جائے۔‘‘
حضرت یعلیٰ بن اُمیہ نزولِ وحی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ!
فاذا هو مُحَمّدُ الوجه يغط کذالک ساعة ثم سُرِّیَ عنه
بخاری، کتاب التفسير، باب نزل القرآن بلسان قريش، 4: 1907، رقم: 4700
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، 2: 836، رقم: 1180
احمد بن حنبل، المسند، 4: 222، رقم: 17872
بيهقی، السنن، الکبری، باب کان لا ينطق عن الهوی، 7: 50
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا تھا خراٹوں کی سی آواز آ رہی تھی تھوڑی دیر تک یہی حالت رہی پھر رفع ہو گئی۔‘‘
فرشتہ کسی انسانی شکل میں متمثل ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دیتا اور پیغام پہنچاتا جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
واحيانا لی الملک رجلاً فيکلمنی فأعی ما يقول
بخاری، الصحيح، کتاب بدء الوحی، 1: 4، رقم: 2
مسلم، الصحيح، کتاب الرؤيا، باب عرق النبی صلی الله عليه وآله وسلم فی البرد، 4: 1816، رقم: 2333
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، باب ذکر مناقب الحارث بن هشام، 3: 314، رقم: 5213
ابن حبان، الصحيح، کتاب الوحی، باب ذکر وصف نزول الوحی، 1: 225، رقم: 38
اور بعض اوقات فرشتہ میرے لئے آدمی کی شکل میں متمثل ہو جاتا وہ مجھ سے گفتگو کرتا ایسے کہ جو وہ کہے میں یاد کر لیتا ہوں۔‘‘
عام طور پر حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں تشریف لاتے حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ!
وکان جبريل عليه السلام ياتی النبی صلی الله عليه وآله وسلم فی صورة دحية
بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب کيف نزول الوحی، 4: 1905، رقم: 4695
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب الاسراء برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 1: 153، رقم: 167
احمد بن حنبل، المسند، 2: 107، رقم: 5857
مروزی، تعظيم قدر الصلاة، 1: 381، رقم: 372
مناوی، فيض القدير، 1: 514
ذهبی، سير أعلام النبلاء، 2: 553
سيوطی، تنوير الحوالک، 1: 15
بيهقی، شعب الايمان، 5: 175، رقم: 6275
’’اور جبرئیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت دحیہ کی صورت میں آتے ۔‘‘
وحی کے نزول کی صورتوں میں سے پانچویں صورت یہ کہ فرشتہ اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوتا جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص روایت کرتے ہیں ۔
أن محمدًا صلی الله عليه وآله وسلم رأی جبريل له ستمائة جناح
بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله فأوحی الی عبده ما اوحی، 4: 1841، رقم: 4576
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب فی ذکر سدرة المنتهی، 1: 158، رقم: 174
ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب من سورة النجم، 5: 394، رقم: 3277
ابو عوانة، المسند، 1: 134، رقم: 402
شاشی، المسند، 2: 125، رقم: 662
ابو يعلی، المسند، 9: 230، رقم: 5337
هبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 3: 530، رقم: 932
طيالسی، المسند، 1: 48
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل امین کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے ۔
’’حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے۔‘‘
رای رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم جبريل عليه السلام فی صورته له ست مائه جناح
احمد بن حنبل، المسند، 1: 395، رقم: 3748
طبرانی، المعجم الکبير، 9: 217، رقم: 9054
ابن حبان، الصحيح، 14، 336، رقم: 6427
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔‘‘
بعض اوقات اللہ تعالی فرشتوں کی وساطت کے بغیر اپنے خاص بندوں پر القاء کرتا ہے جس کا بیا ن قرآن میں اسطرح ہے ۔
أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ
القرآن، شوری، 42: 51
’’یا پردے کے پیچھے سے (کلام کرتا ہے) ‘‘
جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور پر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معراج کے موقع پر بلاواسطہ کلام فرمایا ۔
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ معراج کے موقع پر بلا واسطہ مکالمہ فرمایا جس میں نمازیں فرض ہوئیں اور دوسری راز و نیاز کی باتیں ہوئیں۔
وحی کی انتہائی صورت یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے شب معراج بلا حجاب مشاہدہ و خطاب سے سرفراز فرمایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بیک وقت تکلم و دیدار کے شرف سے مشرف ہوئے۔
پہلی چار صورتیں عمومی ہیں جن میں وحی اکثر و بیشتر ہوا کرتی تھی جبکہ آخری چار صورتیں خصوصی ہیں جن کا تعلق بعض خاص ساعتوں سے تھا، مثلاً معراج میں مقام قاب قوسین او ادنیٰ اور مقام دنیٰ فتدلیٰ وغیرہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ بعثت کے جملہ احوال پر نظر ڈالی جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وحی الٰہی کی سب سے ابتدائی صورت رویائے صالحہ تھی اور اس کی آخری صورت جو منتہائے کمال پر ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شبِ معراج جمال الٰہی کے بلاحجاب مشاہدہ اور ذات حق سے شرف کلام سے عبارت تھا اس حقیقت کی طرف اشارہ اس آیت کریمہ میں ملتا ہے:
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىo فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى
القرآن، نجم، 53 : 9- 8
’’پھر (اس محبوب حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھے پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔‘‘
اور یہ حدیث بھی جسے حضرت عبداللہ ابن عباس ص نے روایت کیا ہے اس امر پر دلالت کرتی ہے۔
دنا الجبار رب العزة فتدلیٰ
بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قوله وکلم الله موسیٰ تکليما، 6: 2731، رقم: 7079
ابو عوانة، المسند، 1: 121، رقم: 357
هبة اﷲ، اعتقاء اهل السنة، 4: 769
’’اللہ رب العزت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہوئے پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزید قریب ہوئے۔‘‘
اور پھر ’’فاوحی الی عبدہ ما اوحیٰ‘‘ کے تحت جو کچھ چاہا محبوب کو وحی کیا اور محب و محبوب کے درمیان راز و نیاز کی بلا حجاب باتیں ہوئیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔