Fatwa Online

کیا شوہر کی اجازت کے بغیر پیسے جمع کر کے کسی کی مدد کی جاسکتی ہے؟

سوال نمبر:1833

السلام و علیکم میرا سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان سے باہر رہتے ہیں جب بھی میں پاکستان جاتی ہوں میرے شوہر مجھے پیسےکی تنگی دیتے ہیں جب کہ ہم صاحب حیثیت ہیں۔ وہاں جا کے میں اپنے تمام اخراجات خود اٹھاتی ہوں جب کہ وہ مجھے صرف تین ہزار دیتے ہیں وہاں کہیں آنا جانا ہو فون کا بل حتی کہ اپنے کپڑے دھونے کے لیے سرف بھی میں نے اپنے پیسوں سے لینا ہوتا ہے 3 ہزار میں گزارا نہیں ہوتا۔ اب میں ان سے پوچھے بغیر انہی کے پیسوں سے پیسے جمع کر رہی ہوں تاکہ اپنا خرچہ باآسانی پورا کر سکوں۔ کیا یہ کر سکتی ہوں اسی پیسے سے صدقہ یا نیکی کا کوئی کام کر سکتی ہوں۔ یا انہی پیسوں سے کسی کو عمرہ کروا سکتی ہوں؟ یا عمرہ کے ٹٰکٹ کے پیسے دے سکتی ہوں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: نامعلوم

  • مقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 06 جون 2012ء

موضوع:صدقات

جواب:

آپ کے سوال کے مطابق اگر شوہر آپ کو پورا خرچ نہیں دیتا یا اتنے پیسے دیتا ہے جس سے آپ کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں تو ایسی صورت میں آپ ایسا کر سکتی ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آّپ کی نیت غلط نہ ہو۔ ضرورت سے زیادہ پیسہ نہ نکالیں۔ فضول خرچی نہ کریں۔ اگر واقعی ضرورت کے لیے آپ ایسا کرتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ آپ کا حق ہے یہی سوال حضرت ہندہ زوجہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

 ان ابا سفيان شعيع لا يعطينی من النفقة ما يکفينی ويکفی بنی الا ما اخذت من ماله بغير علمه فهل علی فی ذلک من جناح؟ فقال رسول لله صلی الله عليه وآله وسلم خذی من ماله بالمعروف وما يکفيک ويکفی بنيک.

(صحيح مسلم، 1714، کتاب: القضية، باب: قضية هند الفقه الحنفی فی ثوبه الجديد، ج:2 ص: 124)

انہوں نے کہا کہ ابو سفیان کنجوس آدمی ہے مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جس سے میری ضروریات اور میرے بیٹے کی ضروریات پوری ہوں تو میں ان کے مال سے بغیر بتائے مال نکال لیتی ہوں تو کیا ایسا کرنے سے مجھ پر کوئی گناہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا اس کے مال سے اتنا نکال کیا کرو جتنا تمہارے اور تمہارے بیٹے کے لیے کافی ہو۔

لہذا آپ اپنی ضرورت کے مطابق نکال سکتی ہیں اور اس مال سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہیں۔ دوسروں کی مدد بھی کر سکتی ہیں اس سے آپ کو اجرو ثواب ملے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:حافظ محمد اشتیاق الازہری

Print Date : 22 November, 2024 04:09:59 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1833/