جواب:
تزکیہ نفس کی ضروت کو سمجھنے کے لیے پہلے فطرت انسان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔
انسان کا وجود جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے جسم اور روح دونوں کے الگ الگ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے ان کی فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت وبہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں اسی لیے نفسِ انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفسِ انسانی کی فطرت میں شامل ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ.
’’بے شک نفس تو برائیوں کا ہی حکم دیتا ہے۔‘‘
يوسف، 12 : 53
لیکن دوسری طرف اﷲتعالیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز، حق پرستی، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَاO
’’پس (اﷲتعالیٰ) نے نفس انسانی کے اندر برائی او ر اچھائی دونوں کا شعور ودیعت کردیا ہے۔‘‘
الشمس، 91 : 8
اور ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا :
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
’’اور ہم نے (انسان کو نیکی اوربدی کے) دونوں راستے دکھا دیئے ہیں‘‘
البلد، 90 : 10
گویا انسان کے اندر برائی اور اچھائی، بدی و نیکی، خیرو شر دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کر دیئے گئے۔
ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکراؤ کی کيفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے۔ اسی بگاڑ سے بے راہ روی، ظلم و استحصال، فسق و فجور جنم لیتے ہیں انسانی شخصیت اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس کی ضرورت کیونکر پیش آتی ہے اس کی کشمکش سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے تزکیہ نفس۔
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىO
’’اور نفس کو ہر بری خواہش سے روکتا ہے۔‘‘
النازعات، 79 : 40
اس آیہ کریمہ سے پتا چلا کہ روح میں موجود خیرکے تقاضوں کو نفس کے برے اور شر کے تقاضوں پر غالب کرلینے سے یہ تصادم ختم ہوجاتا ہے۔ نیکی بدی پر غالب آجاتی ہے اور جب حیوانی، شہوانی، نفسانی قوتیں کمزور ہونے لگیں تو نتیجتاً روح اور اس میں پوشیدہ نیکی کی قوتیں نشونما پا کر طاقتور، اور مضبوط ہوجاتی ہیں اور انسانی کی ساری قوتیں نیکی کے فروغ پر صرف ہونے لگتی ہیں۔
پس جب کوئی برائی نفس انسانی میں فروغ نہ پاسکے، کوئی شے صراط مستقیم سے اس کو بہکانہ سکے اور مادی زندگی کی آلائشیں اس کو اس راہ حق سے ہٹا نہ سکیں تو ایک طرف اسے بارگاہ خداوندی میں ایسا سجدہ عبادت نصیب ہو جاتا ہے جس کی کيفیت فان لم تکن تراہ فانہ یراک کی مصداق ہے۔ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا بصورت دیگر خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔
اور دوسری طرف اس کی شخصیت روحانی و اخلاقی کمال کی بلندیوں کو بھی پالے تو اس عمل کا نام تزکیہ نفس ہے جس کے حصول کے بغیر عبادت بے معنی و بے لذت ہے نیکی کے فروغ و تقویٰ اور معرفت ربانی کے لیے پہلا زینہ اور سب سے پہلا عمل تزکیہ نفس ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔