کیا سود کے پیسے غریبوں میں تقسیم کرنا جائز ہے؟
سوال نمبر:1787
ایک مزار کے آمدن لاکھوں میں ہے اور وہ اس آمدن کو حفاظت کے طور پر بنک میں جمع کرواتے ہیں اور اس سے حاصل شدہ سود کو مزار کی کمیٹی غریب و مستحق افراد مِں بانٹ دیتی ہے, اس طرح اس جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والے سود سے دربار کو کوئی فائدہ نہیں، البتہ کمیٹی کے افراد اپنے من پسند لوگوں کو فائدہ دیتے ہیں۔ دین کے حوالے سے ہمیں آگاہ فرمائیں کہ ہم ہندوستان میں رہتے ہوئے سود والی آمدن جو لاکھوں میں ہے، اُسے کہاں کہاں استعمال کر سکتے ہیں؟ جس سے مزار کو بھی فائدہ ہو۔ برائے کرم ہماری رہنمائی فرمائیں۔
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد ذوالفقار
- مقام: پونچھ، جموں کشمیر
- تاریخ اشاعت: 23 مئی 2012ء
موضوع:سود
جواب:
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ سود کسی بھی صورت اور کسی بھی جگہ مسلمانوں
کے لئے حلال نہیں ہے۔ ہندوستان کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے یا دنیا کےکسی بھی ملک
کے، سود ہر جگہ حرام ہے۔ جیسے شراب پینا، زنا کرنا وغیرہ، ان امور میں کسی قسم
کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نص قطعی سے ان کی حرمت ثابت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر مزار کی آمدن لاکھوں میں ہے تو اسے کسی بھی بینک کے PLS
اکاؤنٹ نفع و نقصان شراکت کے اکاؤنٹ میں جمع کروائیں۔ اس سے آمدن میں اضافہ بھی ہو
گا اور وہ اضافہ حلال بھی ہو گا۔ اس کے علاوہ بینک سے اس آمدن پر منافع لینا
سود ہو گا اور سود بہر صورت حرام ہے، چاہے اس سود سے حاصل ہونے والی رقم غرباء ومساکین
میں تقسیم کی جائے یا مزار کی آمدن میں ڈال دیا جائے۔ حرام چیز حرام ہی رہے گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:حافظ محمد اشتیاق الازہری
Print Date : 21 November, 2024 10:50:28 PM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1787/