Fatwa Online

اذان اور اقامت سے پہلے یا بعد میں درود و سلام پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟

سوال نمبر:1339

اذان اور اقامت سے پہلے یا بعد میں درود و سلام پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: اسلام

  • مقام: ہند
  • تاریخ اشاعت: 07 مارچ 2012ء

موضوع:اذان

جواب:

قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف بھیجنے کا حکم ہے، لہذا عمر بھر میں ایک بار درود شریف پڑھنا فرض ہے اور ہر مجلس ذکر میں ایک بار واجب ہے۔ خواہ خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک زبان سے بولے یا کسی اور سے سنے اور اگر ایک مجلس میں سو بار بھی اسم گرامی بولے یا سنے تو درود و سلام بھیجے۔

در المختار مع ردالمحتار، 1:518 طبع کراچی

نفس مسئلہ قرآن سے

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo

الاحزاب، 33 : 56

بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo

قرآن کریم کے اس عظیم الشان ارشاد پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ نماز، روزہ، حج وغیرہ کے اوقات متعین ہیں۔ نماز کو اوقات مکروہہ میں ادا کرنے سے منع فرما دیا۔ روزہ دن کو رکھنا اور وہ بھی چند دن کے سوا یعنی سال میں پانچ دن روزہ رکھنے سے منع فرما دیا گیا، یعنی عیدالفطر کے دن اور چار دن ایام نحر کے (10، 11، 12، 13 ذی الحجہ)۔ حج ذی الحجہ کے چند دن میں ہی ہو سکتا ہے۔ چونکہ ان تینوں عبادات میں وقت کی پابندی ہے، لہذا مقررہ وقت کے علاوہ ان پر عمل کرنا جائز نہیں۔ مگر درود و سلام میں یہ صورت نہیں۔ درود و سلام پڑھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔

درود و سلام کی مثال جہاد، سچ بولنے، خرچ کرنے، انصاف کرنے، امانت ادا کرنے، دین کی تبلیغ و تلقین، کاروبار میں اسلامی ہدایات پر عمل کرنے، بیوی، بچوں، ماں، باپ، ہمسائے اور دیگر مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی سی ہے۔ یہ سب حکم شرعی ہیں، فرض ہیں، مگر ان کی ادائیگی میں وقت کی قید نہیں۔ جب موقع ملے ان پر عمل کریں، درود و سلام پر عمل کرنے کا بھی شریعت نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔ یونہی کسی بھی وقت میں درود و سلام پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا۔ لہذا جب موقع ملے، بندہ مومن درود و سلام پڑھ کر اپنے رب کا حکم بجا لا سکتا ہے اور اپنے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح آپ ہر سڑک اور ہر راستے پر چل سکتے ہیں، اس کے لیے ضروری نہیں کہ راستوں میں لکھا ہو۔ "آپ یہاں چل سکتے ہیں"، جس جگہ چلنا یا گزرنا منع ہو وہاں لکھا ہوتا ہے۔ "یہاں داخلہ ممنوع ہے" اسی طرح شریعت نے جو حکم فرض و واجب تھے وہ بتا دیئے گئے، جو منع تھے، ان سے روک دیا گیا۔

پس درود و سلام کی ادائیگی کا حکم تو ہے وقت کی قید نہیں۔ جب بھی کوئی مسلمان پڑھے گا، حکم قرآن و سنت پر عمل ہو جائے گا۔ اذان سے پہلے یا بعد میں بھی۔ چونکہ قرآن و حدیث میں درود و سلام پڑھنے سے منع نہیں فرمایا گیا، لہذا جب بھی کوئی مسلمان پڑھے قرآن و حدیث پر عمل ہو گا۔ ناجائز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو ناجائز کہے وہ قرآن و حدیث سے دلیل پیش کرے۔

حدیث پاک سے اذان اور درود شریف

حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا سمعتم الموذن فقولو مثل ما يقول ثم صلو علی فانه من صلی علی صلوة صلی الله عليه بها عشرا ثم سلوا الله لی الوسيلة فانها منزلة فی الجنة لا ينبغی الا لعبد من عبادالله وارجو ان اکون انا هو فمن سال لی الوسيلة حلت عليه الشفاعة.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب موذن کو سنو تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو، جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے اس کے بدلے اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے۔ پھر میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو۔ (اللهم رب هذه الدعوة.....) یہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔

اس حدیث پاک میں اذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم ہے۔ ارشاد بالکل واضح ہے۔ پھر درود شریف کے بعد دعا مانگنے کا حکم ہے۔

حدیث شریف کا نام لے کر عوام کو گمراہ کرنے والے بتائیں کہ انہوں نے یہ دونوں حکم کس دلیل سے رد کئے؟ نہ وہ اذان کے بعد درود شریف پڑھیں، نہ دعا مانگیں۔ کیا انہوں نے کبھی ان پر عمل کیا؟ کیا اپنے عوام کو کبھی یہ حدیث شریف سنائی؟ اگر کہو ہم دل میں پڑھتے ہیں، تو اس کی دلیل بھی قرآن یا حدیث سے پیش کریں جو قرآن و سنت پر عمل کریں وہ بدعتی نہیں، پکے مسلمان ہیں۔ جو قرآن و حدیث کی مخالفت کریں وہ پکے منکر، بدعتی ہیں۔ تمام منکرین جمع ہو کر بلکہ ممکن ہو تو مرے ہوؤں کو بھی بلا لیں اور ہمارے مطالبہ کا شرعی جواب دیں۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دیگر آئمہ دین، اللہ رسول کی ہر بات ماننے والے تھے۔ جب آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ اذان کے بعد درود پڑھو تو یقیناً تمام مؤذن خواہ وہ صحابہ کرام میں سے ہوں، خواہ بعد والوں میں، یقیناً اذان کے ساتھ درود و سلام بھی پڑھتے تھے اور دعا بھی مانگتے تھے۔ چونکہ آج کے بد بختوں سے پہلے کبھی کسی مسلمان نے ایسے واضح ارشاد میں شک ہی نہیں کیا، نہ سوال کیا۔ لہذا آئمہ دین نے اس کی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر آپ کو کوئی ثبوت مل چکا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ یا دیگر اصحاب اذان کے ساتھ پہلے یا پیچھے درود و سلام نہ پڑھتے تھے، ثبوت پیش کریں۔

جب حکم شرعی واضح ہے اور صحابہ و آئمہ دین عامل بالکتاب و الحدیث تھے تو لا محالہ وہ قرآن و حدیث کے اس حکم پر بھی عامل تھے۔ اس پر حوالہ مانگنا ایسے ہی جاہلانہ بات ہے جیسے قرآن و حدیث سے ثابت کرو کہ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی شیر خدا، امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی، شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہم نماز عصر پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، زکوۃ دیتے تھے، سورہ یاسین پڑھتے تھے، نماز عید ادا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ

ان بزرگوں کی بڑائی احکام شرع پر عمل کرنے میں ہے، مخالفت کی بدگمانی کوئی شیطان ہی کر سکتا ہے۔ لہذا وہ اذان کے ساتھ اپنے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ضرور درود و سلام پڑھتے تھے۔ اس کے خلاف دلیل رکھتے ہو تو لاؤ، ورنہ فرمان والا شان کے آگے جھک جاؤ۔ کہیں مخالفت امر رسول تمہاری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے۔ عوام ان گمراہوں سے کہیں

کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں

ہاں درود و سلام پڑھنے کا انداز وہ تو نہیں جو اذان کا ہے۔ اذان میں انگلیاں کانوں میں ٹھونسنے اور اونچی آواز نکالنے کی ہدایت تھی۔ جبکہ درود و سلام میں یہ نہ ہوتا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ البتہ لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے درود و سلام کی آواز بھی دور تک پہنچ جاتی ہے۔ چونکہ اذان کے کلمات سن کر شیطان ہوا خارج کرتا ہوا بھاگ جاتا ہے، لہذا درود و سلام پر اس کا بھڑکنا فضول ہے۔ اسے چاہیے جہاں اذان سے بچنے کے لیے وہ اتنا دور بھاگ نکلتا ہے جہاں تک آواز جاتی ہے۔ ( حدیث پاک ) وہاں ذرا مزید ٹھہرا رہے تا کہ درود و سلام کی آواز سے بچا رہے۔ اہل ایمان کے لیے تو یہ پاکیزہ اور حسین آوازیں غذائے قلب و روح ہیں۔ امید ہے ان کے لیے بات کافی ہے۔

اس مسئلہ پر آؤ صلح کر لیں

گو شرعاً درود و سلام ہر وقت جائز ہے۔ جیسا کہ تفصیل ذکر کر دی گئی ہے۔ اذان سے پہلے بھی، بعد بھی۔ تاہم منکرین سے گزارش ہے کہ ان احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے سر جھکا لیں۔ جس کا حوالہ اوپر درج ہے۔ جامعہ اشرفیہ کے مولانا عبد الرحمن اشرفی نے بھی جنگ جمعہ میگزین میں لکھا ہے کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم حدیث مسلم میں موجود ہے۔

آئیں سب فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم کےمطابق اذان کے بعد درود شریف اپنی اپنی مسجدوں میں پڑھنا شروع کر دیں۔ پہلے پڑھنے پر ہم اصرار نہیں کرتے، بعد میں پڑھنے سے آپ انکار نہ کریں۔ درود شریف جو پسند ہے وہ پڑھیں، پڑھیں تو سہی یا اس حدیث پاک کا جواب دیں۔

رہا سپیکر کا سوال، تو جب تک یہ سہولت میسر نہ تھی ہم اور آپ سبھی بغیر سپیکر کے بلالی اذان دیتے تھے۔اب قدرت نے یہ نعمت دی ہے تو اذان اور بعد میں درود شریف اور دعا کیوں نہ سپیکر میں پڑھیں۔ اگر سپیکر پر دی جانے والی اذان اذانِ بلالی ہو سکتی ہے تو سپیکر پر پڑھا جانے والا درود و سلام کیوں قرآنی، حدیثی اور بلالی بلکہ خدائی و مصطفائی نہیں ہو سکتا؟

کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ( ظاہری ) زمانے میں اذان سے پہلے ’’صلوٰۃ ‘‘ پڑھی جاتی تھی؟

اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو جس وقت اور جس جگہ بھی کوئی شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھے گا، اس پر فوراً یہ جاہلانہ، متعصبانہ اعتراض جڑ دیا جائے گا کہ کیا اس دن، اس تاریخ، اس جگہ، اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں درود پڑھا جاتا تھا؟ اور یہ سوال صرف درودو سلام پر ہی نہیں وارد ہو گا بلکہ ہر اس امر شرعی پر وارد ہو گا، جس میں جگہ اور وقت کی قید نہیں۔ مثلاً نفلی صدقہ، نفلی نماز، نفلی روزہ، اﷲ تعالیٰ کا ذکر، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام، قرآن پڑھنا، مسکین کو کھلانا، پہنانا، درس و تدریس، وغظ وتقریر، جہاد و قتال، تالیف و تصنیف وغیرہ، جب قرآن و سنت یا اجماع امت و قیاس و استنباط سے کوئی مسئلہ ثابت ہو تو پھر اس کی شرعی حیثیت پر سوال کرنا محض حماقت ہے۔

قرآن و سنت اور علماء امت نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ فلاں زمانے میں ہونے والا عمل جائز ہے اور فلاں زمانے میں ہونے والا عمل ناجائز ہے۔ صحابہ و تابعین یا غوث الاعظم یا ائمہ اربعہ کے دور تک جو کام ہوا ہو، جائز ہے اور جو کام فلاں سن کے بعد ہوا وہ ناجائز۔ یہ قاعدہ قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ میں کہبیں بھی کسی نے ذکر نہیں کیا۔ یہ اس دور کے کم فہم، متعصب، بیمار ذہنوں کی اختراع ہے۔ کیا دور اول میں چوری، زنا، قتل، تخریب کاری، منافقت، کفر و ارتداد، قذف، جھوٹ، غیبت اور نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج و جہاد کا ترک کرنا جائز تھا؟ صرف اس بناء پر کہ وہ نزول قرآن کا زمانہ تھا، بہترین زمانہ تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کا دور تھا۔ جس کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

خير الناس قرنی ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم

بخاری، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل الصحابة النبی صلی الله عليه وآله وسلم ورضی اﷲ، 3 : 1335، الرقم: 3451

’’تمام لوگوں میں بہتر زمانہ میرا ہے پھر ان لوگوں کا جو ان سے ملے ہوں گے پھر ان کا جو ان سے ملے ہوں گے۔‘‘

ہرگز نہیں، جائز و ناجائز کا تعلق لوگوں کے طبقات، زمان و مکاں سے نہیں اصولوں سے ہے۔ اسلامی اصولوں کی پابندی اس وقت بھی نیکی تھی، آج بھی نیکی ہے۔ اسلامی احکام کی خلاف ورزی اس وقت بھی جرم تھا اور اس کے مرتکب مجرم تھے اور ان کو اسی طرح شرعی سزائیں دی گئیں، جس طرح بعد کے مجرموں کو، حدود و قصاص کے شرعی احکام ان پر اسی طرح جاری ہوئے جیسے بعد والوں پر، کسی مجرم کو یہ کہہ کر چھوڑا نہیں گیا کہ یہ دور بہترین ہے، یہ زمانہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہترین زمانہ ہے، یہ طبقہ امت، صحابہ کرام کا مقدس طبقہ ہے۔ یوں بعد والے علمائے امت، فقہائے ملت اور محافظان سنت کے علمی فقہی، تفسیری اور احادیث نبوی کے عظیم قابل قدر کام کو کسی نے یہ کہہ کر رد نہیں کر دیا کہ یہ ذخیرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہترین زمانہ میں نہ تھا۔ اچھا کام ہے خواہ وہ کسی کے ہاتھوں اور کسی بھی زمانے میں ہو اور برا کام برا ہے خواہ کرنے والا کوئی ہو، زمانہ و مقام کوئی ہو، بات زمان و مکاں و طبقات کی نہیں اصولوں کی ہے۔

جو فعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ یہ جنگ یمامہ کا دور تھا۔ (جب صحابہ کرام اور جھوٹی نبوت کے دعویدار مسیلمہ کذاب کے درمیان خونریز جنگ ہو رہی تھی) میں حاضر خدمت ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر فاروق میرے پاس آئے اور انہوں نے فرمایا کہ جنگ یمامہ کے سخت معرکے میں قرآن کے قاری کثرت سے شہید ہو گئے (تقریباً سات سو حافظ و قاری)، مجھے ڈر ہے کہ مختلف محاذوں پر اگر قراء اسی طرح شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ میری رائے ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے عمر فاروق سے کہا:

کيف تفعل شيئا لم يفعله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم

’’آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا؟‘‘

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

هذا واﷲ خير

’’اﷲ کی قسم! یہ بہتر کام ہے۔‘‘

عمر فاروق بار بار مجھ سے کہتے رہے۔

حتی شرح اﷲ صدری لذلک ورايت فی ذلک الذی رای عمر

’’حتی کہ اﷲ نے میرا سینہ اس کے لئے کھول دیا اور مجھے بھی اس میں وہ حقیقت نظر آ گئی جو عمر کو نظر آئی تھی۔‘‘

حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم عقلمند جوان ہو۔ ہم تم پر کوئی تہمت نہیں لگائیں گے۔ جبکہ تم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی (بھی) لکھا کرتے تھے۔ پس قرآن ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو۔

حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

فو اﷲ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ماکان اثقل علی مما امرنی به من جمع القرآن

’’اﷲ کی قسم اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرنے کی تکلیف دیتے تو یہ کام قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری سے بڑھ کر مجھ پر بھاری نہ تھا۔‘‘

کہتے ہیں میں نے کہا:

کيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم

’’آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

هو واﷲ خير.

اﷲ کی قسم یہ کام اچھا ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار مجھے فرمائش کرتے رہے۔

حتی شرح اﷲ صدری للذی شرح له صدر ابی بکر و عمر

یہاں تک کہ اس کام کے لئے اﷲ تعالیٰ نے میرا بھی سینہ کھول دیا جس کے لئے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔

میں نے قرآن کریم کو ڈھوڈنا اور جمع کرنا شروع کردیا، کجھوروں کی ٹہنیوں سے، پتھروں سے اور لوگوں کے سینوں سے، یہاں تک کہ سورہ توبہ کا آخری حصہ مجھے ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ملا، کسی اور کے پاس نہ ملا۔ لقد جاء کم رسول من انفسکم سورہ براۃ کے آخر تک، یہ مجموعہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس زندگی بھر رہا۔ پھر آپ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس رہا۔

 بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 4: 1907، الرقم: 4701

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 21 November, 2024 09:30:34 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1339/