Fatwa Online

نفل نمازیں باجماعت ادا کرنا کیسا ہے؟

سوال نمبر:1217

نماز نفل (تہجد، اشراق، صلوۃ التسبیح) باجماعت ادا کرنا کیسا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد ارشد

  • مقام: ضلع سرگودھا بھیرہ
  • تاریخ اشاعت: 14 اکتوبر 2011ء

موضوع:نماز  |  نمازِ باجماعت کے احکام و مسائل  |  نفلی نمازیں  |  نفل

جواب:

صلوٰۃ التسبیح

صلوٰۃ التبیح باجماعت ادا کی جا سکتی ہے۔ چونکہ نفل نماز کا باجماعت ادا کرنا درست ہے اور صلوٰۃ الستبیح بھی نفل ہے، بخاری شریف میں ہے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے گھر لے گئے اور حضور علیہ السلام نے برکت کے لیے دو رکعت نفل باجماعت ادا فرمائے۔

(بخاری، 1 : 40، مطبوعه کراچی)

شرح بخاری عمدۃ القاری میں علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

و فيه صلوة النافلة فی جماعة بالنهار.

(عمدة القاری، 4 : 170، مطبوعه کوئته)

اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ نفل نماز دن کو باجماعت ادا کرنا درست ہے۔

پس باجماعت صلوٰہ التسبیح درست ہے۔ تسبیحات مکمل طور پر بلند آواز سے پڑھنا درست نہیں، بلکہ عوام کی سہولت کے لیے صرف ایک دفعہ "سبحان اللہ" پڑھے تو کافی ہے۔

نماز تہجد

صلوٰۃ اللیل کی ایک قسم نماز تہجد ہے، عشاء کے بعد سو کر اٹھنا اور نوافل پڑھنا تہجد کہلاتا ہے۔ اس نماز کی بڑی فضیلت ہے، حدیث پاک میں آتا ہے:

"یہ نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے، نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اس کا ثواب ہے"۔

اور فرمایا :

"تہجد کی نماز اپنے اوپر لازم کر لو، اس لیے کہ یہ نیکوں کی عادت ہے، جو تم سے پہلے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک کرنے والی ہے، گناہوں کو روکنے کا ذریعہ ہے، گناہوں کو مٹاتی ہے اور مرض ہٹانے والی ہے"۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ کو تمام روزوں سے حضرت داؤد علیہ السلام تہائی رات نماز پڑھتے، پھر چھٹے حصے میں سوتے۔

(سنن نسائی، جلد 1)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر خود بھی نماز پڑھے اور اپنی زوجہ کو بھی جگائے اور وہ بھی نماز پڑھے، اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی ڈال دے، اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اپنے خاوند کو جگائے، وہ بھی نماز پڑھے اور اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑک دے۔

(سنن ابن ماجه)

جو شخص بھی نماز تہجد پڑھے گا، اس کا چہرہ پر نور اور گفتگو میں تاثیر ہوگی، اور یہ نماز نفس کشی میں اور تزکیہ نفس میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے،

نماز اشراق

نماز اشراق سے مراد ایسی نماز ہے جو طلوع آفتاب کے بعد ادا کی جاتی ہے، جب سورج کچھ بلند ہو جائے، اس وقت اس کو ادا کیا جاتا ہے، اس کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

جو شخص فجر کی نماز پڑھ کر ذکر خدا میں مشغول رہا، یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو گیا، تو دو رکعت اشراق کی پڑھنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا اور چھ رکعتیں پڑھنے والے سے دن بھر کے تفکرات دور کر دئے جاتے ہیں اور جو آٹھ رکعت پڑھے وہ پرہیزگاروں میں لکھا جاتا ہے اور بارہ رکعتیں پڑھنے والے کا گھر جنت میں بنا دیا جاتا ہے۔

(ترمذی شريف، جلد 1)

نماز چاشت

اس نماز کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، حدیث پاک میں آتا ہے :

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے چاشت کی دو رکعت پر مداومت کی اس کے گناہ چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

(سنن ابن ماجه، چاشت کی نماز کا بيان)

ایک دوسری حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔

(ترمذی شريف، جلد 1)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 21 November, 2024 06:13:32 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1217/