Fatwa Online

کیا روپے کے بدلے روپے کی بیع جائز ہے؟

سوال نمبر:1196

کیا روپے کے بدلے روپے کی بیع جائز ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد اقبال اکبر

  • مقام: شیخو پورہ
  • تاریخ اشاعت: 08 ستمبر 2011ء

موضوع:خرید و فروخت (بیع و شراء، تجارت)  |  سود

جواب:

ہمارے بہت سے علماء نے ایک روپیہ کے بدلے دو لینا یعنی ایک روپیہ دو روپے کے بدلے بیچنا جائز قرار دیا ہے، چونکہ روپیہ ثمن اصلی یعنی سونا چاندی نہیں اور سونا چاندی میں تبادلہ کی صورت میں کمی و بیشی حرام ہے، لہٰذا نوٹ کی خرید و فروخت میں کمی و بیشی ہے بوجہ ثمنیت اصلی نہ ہونے کے۔

لیکن مجھے اس بات پر سخت تامل ہے۔ نوٹ کی بحیثیت پرزہ کاغذ ہونے کے تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ تو دراصل اس ثمن اصلی یعنی سونے چاندی کی رسید ہے اور اس رسید کی ضمانت حکومت دیتی ہے، اسی لئے ہر نوٹ پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے کہ ’’بینک دولت پاکسان حامل ہٰذا کو عند الطلب مبلغ ایک ہزار روپیہ ادا کر دے گا‘‘۔ مثلاً نوٹ کی اپنی بلاشبہ کوئی قیمت نہیں، کیونکہ خلقت ثمن اصلی نہیں، مگر یہ ثمن اصلی کی ضمانت اور رسید ہے جو حکومت کی ضمانت پر قابل قبول ہے۔ بالفرض حکومت کسی نوٹ کی ذمہ داری سے دستبردار ہو جائے تو وہ منسوخ ہو جاتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہتا۔ پس نوٹ کی حیثیت سونے چاندی کی ضمانت کی وجہ سے ہے کسی اور وجہ سے نہیں۔ نوٹ میں حکومت کی ضمانت سے عرفاً ویسی ہی ثمنیت ہے۔ جو سونے چاندی میں خلقی۔ پس نوٹ کی تمام اہمیت اس کی ضمانتی ثمنیت کی بناء پر ہے۔ لہٰذا نوٹ کی تجارت دراصل سونے کی تجارت ہے تو جیسے سونے کی تجارت سونے سے کرنے کی صورت میں کمی و بیشی جائز نہیں‘ مساوی مالیت کے نوٹ کی مساوی حیثیت کے نوٹ سے بھی کمی بیشی کے ساتھ تجارت کرنا جائز نہیں۔ جب کوئی شخص لوہے کے سکے‘ انعامی بانڈز اور ہزار یا پانچ سو کے نوٹ دے کر ان کے عوض اتنی مالیت کے دس دس‘ پانچ پانچ یا ایک ایک روپے کے نوٹ خریدتا ہے تو وہ دراصل اس سونے یا چاندی کا اپنی جنس سے تبادلہ کرتا ہے جس کی ضمانت اس نوٹ یا بانڈز پر درج ہوتی ہے۔ فرق دونوں میں صرف ثمنیت خلقی و عرفی کا ہے۔ سونا ثمن خلقی ہے اور نوٹ یا بانڈز ثمن عرفی و قانونی۔ لہٰذا روپیہ یا نوٹ میں برابر مالیت کی صورت میں برابر کا سودا جائز ہے اور کمی بیشی خالص ربا (سود) ہے اور حرام ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 20 April, 2024 12:55:26 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1196/