جواب:
سب سے بڑا ظلم تو لڑکی کے باپ نے کیا کہ چار سال کی عمر میں بغیر سوچے سمجھے اس کی زندگی کا سودا کر دیا جو کہ قرآن و حدیث اور ملکی قانون کے بالکل خلاف ہے۔ جبکہ قرآن صحت نکاح کے لیے بلوغت قرار دیتا ہے :
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ.
(النساء، 4 : 6)
اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
اس آیت کریمہ میں نا بالغ و نادان بچوں کو ان کا اپنا مال بھی اس بنا پر سپرد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اسے ضائع کر دیں گے، تو پھر ان کے نکاح کا فیصلہ کیونکر جائز ہو گا، جسں سے ان کا مستقبل وابستہ ہے؟ حدیث پاک ہے :
ان النبی صلی الله عليه وسلم قال : لا تنکح الايم حتی تستامر ولاتنکح البکر حتی تستاذن.
(بخاری، الصحيح، 5 : 974، رقم : 4843، باب لا تنکح الاب وغيره
البکر و الثيب الابر ضاها، دار ابن کثير اليمامة، بيروت
مسلم، الصحيح، 2 : 1036، رقم : 1419، باب استئذان الثيب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت،
دار احياء التراث العر بی، بيروت)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔‘‘
احناف جن کے نزدیک نا بالغ لڑکے اور لڑکیوں کا نکاح جائز ہے ان کے مطابق بھی اگر بعد میں باپ کی لا پرواہی، حماقت یا لالچ ثابت ہو جائے تو نکاح نہیں ہو گا۔ بالغ ہونے پر لڑکی جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ علامہ شامی نے الدر المختار میں لکھا ہے :
لم يعرف منهما سوء الاختيار مجانة و فسقًا و ان عرف لا يصح النکاح اتفاقًا.
(محمد بن علی علاء الدين الحصنی، الدر المختار، 3 : 67-66، دار الفکر، بيروت)
’’باپ دادا کے نکاح کرنے سے خیار بلوغ اس وقت ختم ہو گا جب ان سے لا پرواہی یا فسق کی وجہ سے غلط فیصلہ نہ ہو اور اگر غلط فیصلہ معلوم ہو جائے تو بالاتفاق نکاح غلط ہے‘‘۔
فقہا مزید وضاحت فرماتے ہیں :
ان المراد بالاب من ليس بسکران ولا عرف بسوء الاختيار.
(شامی، حاشيه ابن عابدين، 3 : 67، دار الفکر بيروت
ابن نجيم، البحر الرائق، 3 : 146، دار المعرفة بيروت)
’’باپ سے مراد ایسا شخص ہے جو نشہ میں بھی نہ ہو اور غلط فیصلہ کرنے والا بھی نہ ہو‘‘۔
یہاں سولہ سترہ سال کی عمر میں لڑکی کا حق تھا کہ وہ اس نکاح کا انکار کرتی اور اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر لیتی کیونکہ یہاں باپ کی حماقت اور لاپرواہی واضح طور پر نظر آ رہی ہے، جس کا ازالہ لڑکے نے دوسری جگہ شادی کر کے کر دیا ہے اور لڑکی بھی اظہار کرتی ہے کہ وہ اسے قطعاً پسند نہیں کرتی۔ فتاوی عالمگیری میں ہے :
واذا ادرکت بالحيض لاباس بان تختار نفسها مع رؤية الدم.
(الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1 : 286، دار الفکر، سن اشاعت 1991ء)
اور جب لڑکی بالغ ہوئی تو (ماہواری کا) خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا کہ خواہ وہ (بچپن کے نکاح کو) برقرار رکھے یا رد کر دے۔
بہر حال لڑکی کے ساتھ اب تک جو کچھ ہوا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، جس کے ذمہ دار لڑکی کا باپ، نکاح خواں مولوی صاحب اور گواہان جنہوں نے مل کر نالغ لڑکی کا سودا کیا اور پھر برادری کے بااثر افراد و علماء جن کے سامنے یہ ظالمانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور وہ خاموش ہیں اور بالخصوص وہ درندہ صفت انسان جو خود تو دوسری شادی کر کے زندگی کے مزے اڑا رہا ہے اور لڑکی کی زندگی کو تباہ و برباد کر رہا ہے، جبکہ فرمانِ الہٰی ہے :
وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ.
(الطلاق، 65 : 6)
اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو۔
لہٰذا مذکورہ بالا تصریحات کے پیش نظر ہمارے نزدیک یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا، لڑکی آزاد ہے اور جہاں چاہے اپنی مرضی سے شرعاً نکاح کر سکتی ہے۔ اب اس کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے، فوراً لڑکی کی رضا مندی سے مناسب جگہ شادی کر دی جائے اور بااثر افراد کو چاہیے کہ اس ظالمانہ کھیل کے تمام کھلاڑیوں کو بذریعہ عدالت سزا دلوائیں تاکہ آئندہ کسی بیٹی پر ایسے مظالم نہ ڈھائے جائیں۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ایسے جاہل والدین کو ہدایت عطاء فرمائے۔ آمین
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔