جواب:
امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں :
و اکثر اهل العلم علی ماروی عن علی و عمر غيرهما من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم عشرين رکعت و هو قول سفيان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی هکذا ادرکت ببلد مکتة يصلون عشرين رکعت.
(جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قيام شهر رمضان، جلد 1)
اکثر اہل علم کا عمل اس پر ہے جو حضرت علی و حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، بیس رکعت۔ یہی حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی کا قول ہے، امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے شہر مکہ میں یہی عمل پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں۔
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کنا نقوم فی عهد عمر بعشرين رکعت.
(مؤطا امام مالک)
ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔
یحی بن سعید کہتے ہیں کہ
ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان يصلی بهم عشرين رکعة.
(مصنف ابن ابی شيبه، 1 : 393، مصنف عبد الرزاق، 1 : 262)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو قول ہے :
ما کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يزيد فی رمضان و فی غيره علی احدی عشر رکعات.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو یا تین دن نماز تراویح ادا فرمائی، پورا رمضان نماز تراویح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ادا کی جانے لگی اور آپ نے بیس تراویح پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جمع فرمایا۔ لہذا جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا حوالہ دے وہ صرف تین دن پڑھے، پورا مہینہ باجماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت نہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔
اس موضوع پر مزید تفصیلات کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب التصريح فی صلاة التراويح اور الانعام فی فضل الصيام والقيام کا مطالعہ کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔