جواب:
ایمان پہلے ہے اور عمل بعد میں۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ جس طرح ایک تناور درخت بننے کے لئے جڑ کا ہونا پہلے ضروری ہے اسی طرح ایمان کے بغیر عمل مقبول نہیں ہو سکتا۔ نیک اعمال روحانی غذائیں ہیں اور ایمان اس کے ساتھ نہ ہو تو پھر بندہ نیک اعمال کے باوجود حالتِ کفر میں ہو گا جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلاَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًاO
الکهف : 18 : 105
’’یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور (مرنے کے بعد) اس سے ملاقات کا انکار کر دیا ہے۔ سو ان کے سارے اعمال اکارت گئے، پس ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی وزن اور مشیت (ہی) قائم نہیں کریں گے۔‘‘
یہ ارشاد ربانی عمل کے مقابلے میں ایمان کی فوقیت کا آئینہ دار ہے۔ ایمان سے محرومی انسان کی اخروی زندگی دائمی خسارے کا موجب بن جائے گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔