جواب:
ایمان کی شاخوں سے مراد انسان کے مختلف اعمال ہیں۔ انسان زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ شرعی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتا رہے تو وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ اسی لیے ارشاد ربانی ہے:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
العنکبوت، 29 : 69
’’جو لوگ بھی جدوجہد کر کے ہمارے قریب آنا چاہتے ہیں ہم انہیں اس مقصد سعید کے لئے کئی راستے دکھا دیتے ہیں۔‘‘
واضح ہو کہ اس آیت میں مجاہدہ کرنے والوں سے یہ نہیں فرمایا گیا کہ ہم انہیں ایک راستہ دکھاتے ہیں بلکہ کئی راستوں کا ذکر ہے جس سے ثابت ہوا کہ زندگی کی بے شمار راہیں ہیں اور ہر انسان اپنے لیے اپنے حسب حال کوئی راہِ عمل متعین کر سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’ایمان کی ستر (70) سے زائد شاخیں ہیں۔ اس کی سب سے افضل شاخ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ شاخ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز (کانٹا، پتھر، نجاست وغیرہ) کا ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، 1 : 63، رقم : 58
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر شاخ اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل ہے اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے برکت کے باعث اور قرب ربانی عطا کرنے کی موجب ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔