کیا مطلقہ دورانِ عدت شوہر سے نان و نفقہ کا مطالبہ کر سکتی ہے؟


سوال نمبر:5781
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک لڑکی کو 18 جون 2020 کو طلاق ہوئی۔ لڑکی اس سے پہلے 11 ماہ سے اپنے والدین گھر رہ رہی ہے۔ اب لڑکی والے عدت کی مدت کا خرچہ مانگ رہے ہیں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرما دیں کہ کیا شرعی اعتبار سے ان کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟

  • سائل: محمد شمیممقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 27 جولائی 2020ء

زمرہ: عدت کے احکام

جواب:

طلاق یافتہ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىO

تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی۔

الطَّلاَق، 65: 6

اس آیتِ مبارکہ میں مطلقہ عورتوں کو بھی وہیں رہائش رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جہاں ان کے طلاق دینے والے شوہر رہتے ہیں، انہیں تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے اور بچے کی پیدائش کی صورت میں اس کے اخراجات اٹھانے کا حکم ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں:

الْمُعْتَدَّةُ عَنْ الطَّلَاقِ تَسْتَحِقُّ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى كَانَ الطَّلَاقُ رَجْعِيًّا أَوْ بَائِنًا ، أَوْ ثَلَاثًا حَامِلًا كَانَتْ الْمَرْأَةُ ، أَوْ لَمْ تَكُنْ.

جو عورت طلاق کی عدت میں ہو وہ نفقہ و سکنیٰ کی مستحق ہے خواہ طلاق رجعی ہو یا بائنہ یا تین طلاقیں ہوں خواہ عورت حاملہ یا نہ ہو۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 557، بيروت: دار الفكر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ مطلقہ دورانِ عدت بھی اسی شوہر سے نان و نفقہ کی حقدار ہے اور دورانِ عدت اس کا خرچہ مانگنا جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری