کیا مسلمان مرد کا مسیحی خاتون سے نکاح کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:5716
السلام علیکم! میری ایک لڑکی سے دوستی ہے جو مسیحی ہے، کیا میں اس سے شادی کر سکتا ہوں؟ اور کیا ہمارا خفیہ نکاح کرنا جائز ہے؟

  • سائل: آصف رانامقام: برطانیہ
  • تاریخ اشاعت: 09 جون 2020ء

زمرہ: اہل کتاب اور کافرہ سے نکاح

جواب:

مسلمان لڑکے کا نکاح مسیحی یا یہودی لڑکی سے جائز ہے۔ آپ اچھی طرح چھان پھٹک کر لیں کہ جس مسیحی لڑکی سے آپ شادی کے خواہاں ہیں وہ کسی اسلام دشمن سرگرمی میں تو ملوث نہیں ہے اور کردار کے حوالے سے کسی اخلاقی گراوٹ کا شکار تو نہیں ہے، اگر ایسا کوئی معاملہ نہ ہو تو آپ اس سے نکاح کر سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے بھی کتابیہ (مسیحی یا یہودی) عورتوں سے نکاح کے لیے پاکدامنی کا تقاضا کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ.

آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

الْمَآئِدَة، 5: 5

مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مفسرین اور فقہاء کرام نے کتابیہ عورتوں سے نکاح کے جواز میں سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ایک مسیحی خاتون کے ساتھ نکاح کی روایت بیان کی ہے۔ امام ابوبکر الجصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

وَرُوِيَ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ تَزَوَّجَ نَائِلَةَ بِنْتَ الْفُرَافِصَةِ الْكَلْبِيَّةِ، وَهِيَ نَصْرَانِيَّةٌ، وَتَزَوَّجَهَا عَلَى نِسَائِهِ.

روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے نائلہ بنت فرافصہ سے نکاح کیا تھا۔ ان کا تعلق بنو کلب سے تھا اور وہ مذہباً عیسائی تھیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی مسلمان بیویوں کے ہوتے ہوئے ان سے نکاح کیا تھا۔

جصاص، أحكام القرآن، 3: 324، بيروت: دار إحياء التراث العربي

شمس الدین محمد بن محمد السرخسی کتابیہ سے نکاح کے بارے میں فرماتے ہیں:

قَالَ: وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَتَزَوَّجَ الْمُسْلِمُ الْحُرَّةَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ} فَدَلَّ أَنَّ اسْمَ الْمُشْرِكِ لَا يَتَنَاوَلُ الْكِتَابِيَّ مُطْلَقًا... وَقَدْ جَاءَ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ تَزَوَّجَ يَهُودِيَّةً، وَكَذَلِكَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى تَزَوَّجَ يَهُودِيَّةً... وَأَمَّا الْمَجُوسِيَّةُ: لَا يَجُوزُ نِكَاحُهَا لِلْمُسْلِمِ؛ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ.

امام صاحب نے فرمایا ہے: اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد مبارک (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ) کی بناء پر اہل کتاب میں سے آزاد عورت کے ساتھ مسلمان شخص کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ وتبارک نے مشرکین کا اہل کتاب پر عطف کیا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ مشرک کا نام قطعاً کسی کتابی کو شامل نہیں ہوتا۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ نے بھی یہودی عورت سے شادی کی اور اسی طرح حجرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی یہودیہ سے شادی کی۔ رہی مجوسی عورت تو اس کا ناکح کسی مسلمان شخص کے ساتھ اس لیے جائز نہیں کہ وہ اہل کتاب میں سے نہیں۔

شرخسي، المبسوط، 4: 210- 211، بيروت: دار المعرفة

علامہ ابن عابدین شامی کتابیہ سے نکاح کے حوالے سے فرماتے ہیں:

وَصَحَّ نِكَاحُ كِتَابِيَّةٍ وَإِنْ اعْتَقَدُوا الْمَسِيحَ إلَهًا، وَكَذَا حِلُّ ذَبِيحَتِهِمْ عَلَى الْمَذْهَبِ.

کتابی عورت سے نکاح جائز ہے اگرچہ وہ مسیح علیہ السلام کے معبود ہونے کا عقیدہ ہی رکھے۔ اِسی طرح ان کا ذبیحہ بھی ہمارے مذہب میں جائز ہے۔

شامي، ردالمحتار، 3: 45، بيروت: دارالفكر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد مسیحی عورت سے نکاح کر سکتا ہے اور یہ نکاح شرعاً جائز ہوگا۔

آپ کے سوال کا دوسرا حصہ اس سوال پر مشتمل ہے کہ کیا خفیہ نکاح کرنا جائز ہے؟ معلوم نہیں کہ خفیہ نکاح سے آپ کی کیا مراد ہے، لیکن اگر خفیہ نکاح سے آپ کی مراد یہ ہے کہ مسلمان عاقل و بالغ گواہوں کی موجودگی میں دستور کے مطابق عاقل و بالغ مرد و عورت کا حق مہر کے عوض ایجاب قبول کریں مگر عامۃ الناس کو اس سے آگاہ نہ کیا جائے تو یہ نکاح جائز ہے مگر اسلامی معاشرت کی روح کے خلاف ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ.

نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور نکاح (شادی) پر دف بجاؤ!

  1. ترمذي، السنن، كتاب النكاح، باب ما جاء في إعلان النكاح، 3: 398، رقم: 1089، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  2. ابن ماجه، السنن، كتاب النكاح، باب إعلان النكاح، 1: 611، رقم: 1895، بیروت، لبنان: دار الفکر

ایک اور حدیث مبارکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالْغِرْبَالِ.

نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس پر ڈھول بجایا کرو۔

  1. ابن ماجه، السنن، 1: 611، رقم: 1895، بيروت: دار الفکر
  2. بزار، المسند، 6: 170-171، رقم: 2214، مؤسسة علوم القرآن مکتبة بيروت

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں شارع کی طرف سے نکاح کا اعلان کرنے، نکاح کی تقریب مسجد میں منعقد کرنے اور اس پر دف یا ڈھول بجانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو حلال و حرام رشتے کے درمیان فرق دف اور گانے کو قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد بن حاطب جمحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاحِ.

نکاح میں حلال و حرام (رشتے) کے درمیان فرق دف بجانا اور گانا ہے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 418، رقم: 15489، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. ترمذي، السنن، كتاب النكاح، باب ما جاء في إعلان النكاح، 3: 398، رقم: 1088
  3. ابن ماجه، السنن، كتاب النكاح، باب إعلان النكاح، 1: 611، رقم: 1896

اس حدیث مبارکہ میں صوت سے مراد ایسے گیت گانا ہے جو فحش اور لغو کلام پر مبنی نہ ہوں۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو نکاح کے بعد دلہن بنا کر ایک انصاری کے ہاں بھیجا۔ تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَا عَائِشَةُ، مَا كَانَ مَعَكُمْ لَهْوٌ؟ فَإِنَّ الأَنْصَارَ يُعْجِبُهُمُ اللَّهْوُ.

اے عائشہ! تمہارے پاس کھیل کود کا بندوبست نہیں؟ انصار کو کھیل کود پسند ہے۔

بخاري، الصحیح، كتاب النكاح ، باب النسوة اللاتي يهدين المرأة إلى زوجها ، 5: 1980، رقم: 4867، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

مقصد یہ کہ شادی والے گھر گیت گانے اور کھیل کود سے نکاح کی تشہیر ہو گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ فلاں کا فلاں سے نکاح منعقد ہوا ہے۔ اسی طرح ایک روایت ہے:

عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَأَسَرَّ ذَلِكَ، فَكَانَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهَا فِي مَنْزِلِهَا، فَرَآهُ جَارٌ لَهَا يَدْخُلُ عَلَيْهَا، فَقَذَفَهُ بِهَا، فَخَاصَمَهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى جَارِيَةٍ، وَلَا أَعْلَمُهُ تَزَوَّجَهَا، فَقَالَ لَهُ: مَا تَقُولُ؟ فَقَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى شَيْءٍ دُونٍ فَأَخْفَيْتُ ذَلِكَ، قَالَ: فَمَنْ شَهِدَكُمْ؟ قَالَ: أَشْهَدْتُ بَعْضَ أَهْلِهَا، قَالَ: فَدَرَأَ الْحَدَّ عَنْ قَاذِفِهِ، وَقَالَ: أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ وَحَصِّنُوا هَذِهِ الْفُرُوجَ.

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے کسی عورت سے خفیہ طور پر شادی کی، وہ اس کے گھر آیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ عورت کے ایک پڑوسی نے آدمی کو اس کے گھر آتے دیکھ لیا تو اس پر تہمت لگادی۔ یہ جھگڑا لے کر وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تہمت لگانے والے پڑوسی نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! یہ شخص میری پڑوسن کے پاس آتا ہے اور مجھے ان کے نکاح کا کوئی علم نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کا بیان معلوم کیا تو اس نے کہا میں نے اس عورت سے خفیہ طور پر شادی کی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گواہوں کی بابت پوچھا تو اس نے کہا عورت کے کچھ رشتہ دار اس نکاح کے گواہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تہمت لگانے والے پر حد تو جاری نہ کی البتہ ان سے فرمایا کہ نکاح کو اعلانیہ کیا کرو اور شرمگاہوں کو پاکدامن رکھو۔

ابن أبي شيبة، المصنف، كتاب النكاح، ما قالوا في إعلان النكاح، 3: 495، رقم: 16397، الرياض: مكتبة الرشد

معلوم ہوا کہ شریعت میں نکاح کی تشہیر پر زور دیا گیا ہے اور خفیہ نکاح کی مذمت کی گئی ہے۔ یعنی دو عاقل و بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں آپ کا نکاح تو منعقد ہو جائے گا البتہ شریعت کی نظر میں آپ کا یہ عمل قابلِ مذمت ہو گا۔ اس کے برعکس اگر خفیہ نکاح سے آپ کی مراد یہ ہے کہ بغیر گواہوں کے صرف لڑکا لڑکی ایجاب وقبول کرلیں تو اس صورت میں سرے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔ اس کی شریعت میں گنجائش نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری