کسی وارث کی کسمپرسی کے سبب اسے حصے سے زائد دینا کیسا ہے؟


سوال نمبر:5706
السلام علیکم! ہم چار بھائی ہیں اور ہماری ایک بہن ہے۔ الحمدللہ ہم دو بھائیوں کے پاس گھر ہیں اور بہن بھی اپنے گھر کی مالک ہے، لیکن دو بھائیوں کے پاس اپنے ذاتی گھر نہیں ہیں۔ وہ والد صاحب کے ملکیتی گھر میں رہتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے والد صاحب کی جائیداد سے ملنے والا حصہ اپنی بہن جوکہ بیوہ ہوگئ ہے اسے دے سکتا ہوں؟ یا ہم چاروں بھائی رضامندی سے والدین کی جائیداد بہن کو دے سکتے ہیں؟ کیا والدین کی زندگی میں ہی جائیداد تقسیم کی جاسکتی ہے؟

  • سائل: عمران اعوانمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 08 جولائی 2020ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا.

اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔

النساء، 4: 8

درج بالا آیتِ مقدسہ میں جس طرح غیر وارث رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں کو کچھ عطاء کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اسی طرح اگر کسی وارث کی کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے باقی ورثاء اس کے حصے سے زائد دینا چاہیں تو یہ عمل باعث اجر و ثواب ہے اور خدا کے حضور پسندیدہ ہے۔

مسئلہ مسؤلہ میں بھی سائل اور اس کے دوسرے بہن بھائی اپنی بیوہ بہن کو اس کے حصے سے زائد دینا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ والدین اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہیں تو انصاف کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کر سکتے ہیں، لیکن ان کے وصال کے بعد ان کا ترکہ، وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری