اگر بیوی صاحبِ نصاب اور شوہر مقروض ہے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5453
اگر بیوی کے پاس نصاب کے بقدر صرف زیور ہے، اور دوسرا مال نہیں ہے، تو کیا شوہر اسکی طرف سے ادائیگی کرے گا؟ اگر اسکے پاس اتنی رقم نہیں، بلکہ وہ خود مقروض ہے، تو اب بیوی زیور کی زکوۃ کیسے نکالے گی، نیز کیا شوہر کو بیوی کی طرف سے زکوٰۃ نکالنا ہوگا؟

  • سائل: مجاہد خانمقام: کاپی، ھندوستان
  • تاریخ اشاعت: 10 اگست 2019ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:

جس عورت کے پاس نصاب کے برابر زیورت ہوں اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا، وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟، قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا، فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد سے اور انہوں نے ان کے جد امجد سے روایت کی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی، جس نے سونے کے دو بہت بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ عرض گزار ہوئیں کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ تمہیں اچھا لگتا ہے کہ قیامت کے روز ان کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے تو اس نے انہیں اتار کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کردیا اور عرض گزار ہوئی کہ یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔

أبوداود، السنن، كتاب الزكاة، باب الكنز ما هو وزكاة الحلي، 2: 95، رقم: 1563، بيروت: دار الفكر

نسائي، سنن الكبري، كتاب الزكاة، زكاة الحلي، 2: 19، بيروت: دار الكتب العلمية

اور حضرت محمد بن عمرو بن عطاء نے عبداللہ بن شداد بن الہاد سے روایت کی کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میرے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھیاں دیکھ کر پوچھا: اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں عرض گزار ہوئی کہ یا رسول اللہ! میں نے آپ کے لیے سنگار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَتُؤَدِّينَ زَكَاتَهُنَّ؟ قُلْتُ: لَا، أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ. قَالَ: هُوَ حَسْبُكِ مِنَ النَّارِ.

کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ میں عرض گزار ہوئی کہ نہیں یا جو اللہ نے چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہیں جہنم کے لیے کافی ہیں۔

أبوداود، السنن، كتاب الزكاة، باب الكنز ما هو وزكاة الحلي، 2: 95، رقم: 1565

درج بالا روایات سے واضح ہوا کہ جس عورت کے پاس نصاب کے برابر یا اس سے زائد مقدار میں زیورت ہوں اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔

آپ کی بیوی زیورات اگر نصاب کے بقدر ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے‘ چاہے دیگر رقوم سے زکوٰۃ کی ادائیگی کرے یا ان زیورات میں سے فروخت کر کے ادائیگی کی جائے۔ زیورات کیونکہ بیوی کی ملکیت میں ہیں اس لیے زکوٰۃ بھی اسی پر واجب ہے‘ شوہر یا اس کے والدین پر نہیں، اس لیے شوہر کے مقروض ہونے سے بیوی کا وجوب ساقط نہیں ہوتا۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے ذمے واجب الاداء زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے، اس سے بیوی کا واجب ادا ہو جائے گا۔ شوہر کے مقروض ہونے سے بیوی کے ذمے واجب الاداء زکوٰۃ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کی جائے گی تو اس کا گناہ مالکِ نصاب پر ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی