کسی مسجد کو شہید کر کے اُسکی زمین بیچ کر دوسری جگہ مسجد بنانا کیسا ہے؟


سوال نمبر:5213
السلام علیکم! مسجد کو شہید کر کے اس کی زمین کو بیچ کر دوسری مسجد اسی خرچ میں نئی جگہ پر بنائی جاسکتی ہے؟

  • سائل: کاشف رحمٰنمقام: کامرہ، اٹک
  • تاریخ اشاعت: 15 اپریل 2022ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

مسجد کی عمارت میں ہر ایسا تغیر وتبدل جائز ہے جس سے مقاصد مسجد میں خلل نہ آئے بلکہ اس سے نمازیوں کے لئے سہوليات پیدا ہوں۔ لہٰذا مسجد انتظامیہ، مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتی ہے، مسجد کا نقشہ بدل سکتی ہے اور دیگر ضروری تبدیلیاں عمل میں لاسکتی ہے۔ فقہ حنفی کے امام حضرت ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وَلِأَهْلِ الْمَحَلَّةِ تَحْوِیلُ بَابِ الْمَسْجِدِ خَانِیَّةٌ وَفِي جَامِعِ الْفَتَاوَی لَهُمْ تَحْوِیلُ الْمَسْجِدِ إلَی مَکَانِ آخَرَ إنْ تَرَکُوهُ بِحَیْثُ لَا یُصَلَّی فِیهِ، وَلَهُمْ بَیْعُ مَسْجِدٍ عَتِیقٍ لَمْ یُعْرَفْ بَانِیهِ وَصَرْفُ ثَمَنِهِ فِي مَسْجِدٍ آخَرَ.

’’محلے دار مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہیں، یہی بات فتاویٰ خانیہ میں ہے اور جامع الفتاوی میں بھی ہے کہ اہل محلہ مسجد کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل سکتے ہیں۔ اگر اسے اس حال میں چھوڑ دیں کہ اس میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے پرانی مسجد بیچ دیں جس کے بانی کا اتہ پتہ نہیں۔ اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔‘‘

ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4: 357، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر

اس عبارت سے یہ اصول معلوم ہو گیا کہ بوقتِ ضرورت مسجد انتظامیہ، مسجد میں کوئی ضروری تبدیلی کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، مسجد کو دوسری جگہ شفٹ کر سکتی ہے اور اس کی اضافی اشیاء جو قابل استعمال نہ ہوں، ان کو بیچ کر مسجد کے دیگر امور میں خرچ بھی کر سکتی ہے۔ امام ابنِ نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

حَوْضٌ أو مَسْجِدٌ خَرِبَ وَتَفَرَّقَ النَّاسَ عَنْهُ فَلِلْقَاضِي أَنْ یَصْرِفَ أَوْقَافَهُ إلَی مَسْجِدٍ آخَرَ وَلَوْ خَرِبَ أَحَدُ الْمَسْجِدَیْنِ فِي قَرْیَةٍ وَاحِدَةٍ فَلِلْقَاضِي صَرْفُ خَشَبِهِ إلَی عِمَارَةِ الْمَسْجِدِ الْآخَرِ.

’’حوض یا مسجد ویران ہو جائیں اور لوگ اِدھر اُدھر بکھر جائیں تو قاضی (عدالت) کو اجازت ہے اس کے اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کسی اور مسجد پر صرف کرے۔ اگر ایک بستی (محلہ) میں، دو مسجدوں میں سے ایک ویران ہو جائے تو قاضی (عدالت) کو اختیار ہے کہ اس کی لکڑی (وغیرہ) دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کرے۔‘‘

  1. زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، 5: 273، بیروت: دار المعرفة
  2. عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنهر في شرح ملتقی الأبحر، 2: 595، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة

امام ابنِ عابدین اور دیگر فقہاء کرام اس سلسلے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لَوْ خَرِبَ الْمَسْجِدُ، وَمَا حَوْلَهُ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْهُ لَا یَعُودُ إلَی مِلْکِ الْوَاقِفِ عِنْدَ أَبِی یُوسُفَ فَیُبَاعُ نَقْضُهُ بِإِذْنِ الْقَاضِي وَیُصْرَفُ ثَمَنُهُ إلَی بَعْضِ الْمَسَاجِدِ.

’’اگر مسجد ویران ہوگئی اور آس پاس بھی ویران ہو گیا اور لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے تو امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک وقف کرنے والے کی ملکیت میں دوبارہ نہیں لوٹے گی۔ لہٰذا قاضی کی اجازت سے اس کا ملبہ فروخت کر کے اس کی قیمت کسی اور مسجد پر صرف کی جائے گی۔‘‘

  1. ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4: 359
  2. مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 3: 20، المکتبة الإسلامیة
  3. ابن الهمام، شرح فتح القدیر، 6: 236، بیروت: دار الفکر
  4. زیلعي، تبیین الحقائق، 3: 330، القاهرة: دار الکتب الإسلامي

فقہاء کی اکثریت نے علامہ حلوانی کی اس رائے سے نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ اسے نقل بھی کیا ہے:

عَنْ شَمْسِ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَسْجِدٍ أَوْ حَوْضٍ خَرِبَ، وَلَا یَحْتَاجُ إلَیْهِ لِتَفَرُّقِ النَّاسِ عَنْهُ هَلْ لِلْقَاضِي أَنْ یَصْرِفَ أَوْقَافَهُ إلَی مَسْجِدٍ أَوْ حَوْضٍ آخَرَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ.

شمس الائمہ الحلوانی سے پوچھا گیا کہ جو مسجد یا حوض ویران ہو گیا اور اس کی ضرورت نہ رہی لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے کیا قاضی اس کے اوقاف کسی دوسری مسجد یا حوض پر خرچ کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔

  1. ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4: 359
  2. الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 4: 478، بیروت: دار الفکر

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں:

وَلَا سِیَّمَا فِي زَمَانِنَا فَإِنَّ الْمَسْجِدَ أَوْ غَیْرَهُ مِنْ رِبَاطٍ أَوْ حَوْضٍ إذَا لَمْ یُنْقَلْ یَأْخُذُ أَنْقَاضَهُ اللُّصُوصُ وَالْمُتَغَلَّبُونَ کَمَا هُوَ مُشَاهَدٌ وَکَذَلِکَ أَوْقَافُهُ یَأْکُلُهَا النُّظَّارُ أَوْ غَیْرُهُمْ، وَیَلْزَمُ مِنْ عَدَمِ النَّقْلِ خَرَابُ الْمَسْجِدِ الْآخَرِ الْمُحْتَاجِ إلَی النَّقْلِ إلَیْهِ.

’’خصوصاً ہمارے زمانہ میں کہ مسجد، اصطبل یا حوض جب دوسری جگہ نقل نہ کئے گئے تو چور اور قابض باغی عناصر نے ان کے ملبہ پر قبضہ کر لیا جیسا کہ ہمارے مشاہدہ میں ہے۔ یونہی اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کو منتظمین وغیرہ کھا جاتے ہیں۔ اس ملبہ کو دوسری جگہ منتقل نہ کرنے سے دوسری مسجد جس کو اس سامان کی ضرورت ہے، وہ ویران رہتی ہے۔‘‘

ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4: 360

مقاصد مسجد کی تکمیل ضروری امر ہے:

بِخِلَافِ مَا إذَا کَانَ السِّرْدَابُ أَوْ الْعُلْوُ مَوْقُوفًا لِمَصَالِحِ الْمَسْجِدِ فَإِنَّهُ یَجُوزُ إذْ لَا مِلْکَ فِیهِ لِأَحَدٍ بَلْ هُوَ مِنْ تَتْمِیمِ مَصَالِحِ الْمَسْجِدِ فَهُوَ کَسِرْدَابِ مَسْجِدِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ.

’’اگر مسجد کا تہہ خانہ یا اوپر (چھت) مقاصد مسجد کے لئے وقف ہے تو یہ جائز ہے کہ اس میں کسی کی ملکیت نہیں بلکہ اس میں مقاصد مسجد کی تکمیل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسجد اقصیٰ کے پانی ذخیرہ کرنے کے سرد خانے۔‘‘

  1. ابن نجیم، البحر الرائق، 5: 271
  2. ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 4: 357

ابن قامہ المقدسی المغنی میں لکھتے ہیں:

وَمَا فَضَلَ مِنْ حُصِرَ الْمَسْجِدِ وَزَیْتِهِ، وَلَمْ یُحْتَجْ إلَیْهِ، جَازَ أَنْ یُجْعَلَ فِي مَسْجِدٍ آخَرَ، أَوْ یُتَصَدَّقَ مِنْ ذَلِکَ عَلَی فُقَرَائِ جِیرَانِهِ وَغَیْرِهِمْ، وَکَذَلِکَ إنْ فَضَلَ مِنْ قَصَبِهِ أَوْ شَيْئٍ مِنْ نَقْضِهِ. قَالَ أَحْمَدُ، فِي مَسْجِدٍ بُنِيَ، فَبَقِيَ مِنْ خَشَبِهِ أَوْ قَصَبِهِ أَوْ شَيْئٍ مِنْ نَقْضِهِ، فَقَالَ: یُعَانُ فِي مَسْجِدٍ آخَرَ. أَوْ کَمَا قَالَ. وَقَالَ الْمَرُّوذِیُّ: سَأَلْت أَبَا عَبْدِ اﷲِ عَنْ بَوَارِي الْمَسْجِدِ، إذَا فَضَلَ مِنْهُ الشَّيْئُ، أَوْ الْخَشَبَةُ. قَالَ: یُتَصَدَّقُ بِهِ وَأَرَی أَنَّهُ قَدْ احْتَجَّ بِکُسْوَةِ الْبَیْتِ إذَا تَحَرَّقَتْ تُصُدِّقَ بِهَا. وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: قَدْ کَانَ شَیْبَةُ یَتَصَدَّقُ بِخُلْقَانِ الْکَعْبَةِ.

’’مسجد کی چٹائی اور تیل میں سے جو بچ جائے اور اس کی ضرورت نہ رہے تو اسے دوسری مسجد میں صرف کرنا یا مسجد کے پڑوس میں موجود فقراء پر صدقہ کرنا جائز ہے یہی حکم مسجد کے بانس اور ملبہ کا بھی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا کہ ایک مسجد کی تعمیر کی گئی ہے اس سے کچھ لکڑی اور ملبہ بچ گیا اس کا کیا کیا جائے؟ امام صاحب نے فرمایا کہ اسے دوسری مسجد میں خرچ کر دیا جائے۔ مروذی کہتے ہیں میں نے ابو عبد اﷲ سے مسجد کی فاضل چٹائی اور فاضل لکڑی کے بارے میں پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ صدقہ کیا جائے میرا خیال ہے انہوں نے کعبہ کے غلاف سے استدلال کیا کہ جب وہ پرانا ہو جاتا ہے تو اسے صدقہ کر دیا جاتا ہے شیبہ کعبہ کے پرانے غلاف صدقہ کر دیا کرتے تھے۔‘‘

موفق الدین أبو محمد عبد ﷲ بن أحمد بن محمد بن قدامة المقدسي، المغني، 5: 370، بیروت: دارالفکر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ مسجد انتظامیہ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ مقاصد مسجد کے بہترین حصول اور نمازیوں کی سہولیات کی خاطر مسجد کی عمارت اور دیگر معاملات میں تغیرو تبدل کر سکتے ہیں کیونکہ اس طرح کی تبدیلیوں کا اصل مقصد دین اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب کوئی مسجد ویران ہو جائے یعنی وہاں کے لوگ اِدھر اُدھر بکھر جائیں یا کسی بھی وجہ سے مسجد بے آباد ہو جائے تو پرانی مسجد کی زمین کو بیچ کر دوسری جگہ نئی مسجد بنا سکتے ہیں۔ اگر سائل کے سوال کو ہم درست سمجھ پائے ہیں تو ان کے سوال پوچھنے کا مقصد یہی ہے کہ کوئی مسجد ویران ہونے پر اس مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں یا نہیں؟ تمام دلائل سے ہم یہی جواب دے رہے ہیں کہ ویران مسجد کی جگہ بیچ کر اس سے حاصل ہونے والے پیسوں سے نئی جگہ مسجد بنائی جاسکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری