کیا نواسہ نانا کی وراثت سے حصہ پاتا ہے؟


سوال نمبر:5124
اسلام علیکم! میرا سوال وراثت کے متعلق ہے، ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے اور ورثے میں وہ ایک عدد مکان چھوڑ کر گئے ہیں۔ ہم 4 بھائی اور 2 بہنیں ہیں اور ہماری والدہ صاحبہ بھی حیات ہیں۔ دادا اور دادی کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔ ہمارے والد صاحب کی یہ دوسری شادی تھی، پہلی شادی سے صرف 1 ہی بیٹی تھی۔ ہماری بڑی امی اور ان کی بیٹی یعنی ہماری بڑی بہن اور ان کے خاوند کا انتقال ہو چکا ہے۔ اُس بہن کا 1 ہی بیٹا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم سب کو اور ہمارے بھانجے کو وراثت میں سے کتنا کتنا حصہ ملے گا؟ شکریہ

  • سائل: محمد منیرمقام: کویت
  • تاریخ اشاعت: 30 اکتوبر 2018ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

تقسیمِ وراثت کے مسئلہ کا صحیح حل بتانے کے لیے فوت شدگان کی ترتیب جاننا ضروری ہوتا ہے جبکہ آپ کے سوال میں معلومات ادھوری ہیں۔ آپ نے اپنے والد صاحب کی دوسری اہلیہ اور اس کی بیٹی کے بارے میں تو بتایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کون کب فوت ہوا؟ کیونکہ آپ کے بھانجے کے بارے فیصلہ یہ جانے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی والدہ اپنے والد کی زندگی میں فوت ہوئی تھی یا بعد میں؟ بہرحال ہم اس کی ممکنہ حالتوں کے بارے میں آگاہ کیے دیتے ہیں:

  1. اگر آپ کی بڑی بہن والد کے وصال کے بعد فوت ہوئی ہے تو والد کے ترکہ سے اُسے ملنے والا حصہ اب اس کے بیٹے کو ملے گا۔
  2. اگر وہ والد سے پہلے فوت ہوئی ہے تو والد کے ترکہ سے اسے حصہ نہیں ملے گا اور نہ اس کے بیٹے کو نانا کے ترکہ سے بطور وارث کچھ ملے گا۔
  3. اگر آپ کے والد صاحب کی پہلی بیوی کا وصال اپنے شوہر کے وصال کے بعد ہوا ہے تو شوہر کے ترکہ سے ملنے والا اس کا حصہ نواسے کو مل سکتا ہے بشرطیکہ اس کا کوئی عصبہ وارث نہ ہو۔

نوٹ: اگر معاملہ درج بالا حالتوں کے علاوہ ہو تو آپ دوبارہ ای میل کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے والد صاحب کے وصال کے وقت ان کی دونوں بیویاں زندہ تھیں تو کُل قابلِ تقسیم ترکہ سے آٹھویں حصے (1/8) میں برابر شریک ہوں گی‘ اگر ایک زندہ ہے تو آٹھواں حصہ اسی کو مل جائے گا۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔

النساء، 4: 12

بیوہ کو دینے کے بعد باقی جائیداد بیٹوں اور بیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر بیٹی کو ایک حصہ اور ہر بیٹے کو اس سے دوگنا ملے گا۔ ارشادِ ربانی ہے:

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔

النساء، 4: 11

اگر آپ کے والد کی دوسری بیوی کی اولاد ایک بیٹی بھی والد کے وفات کے وقت زندہ تھی تو پھر بیوہ یا بیوگان کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد کے برابر گیارہ حصے کیے جائیں‘ ہر بیٹی کو ایک حصہ (فوت شدہ بیٹی کا حصہ اس کے بیٹے کو) دینے کے بعد بقیہ آٹھ حصے چار بیٹوں کو برابر دے دیئے جائیں۔ اگر مذکورہ بیٹی والد کے وصال سے پہلے فوت ہوگئی تھی اسے یا اس کے بیٹے کو حصہ نہیں ملے گا بلکہ آٹھواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ مال کے دس حصے کر کے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک حصہ اور بیٹوں کو دو حصے دیے جائیں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری